اصغر خان اور عمران خان

March 01, 2020

پاکستان کی تاریخ میں دو عشروں کے بعد مین اسٹریم پر تیسری بڑی قوت کے روپ میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنا جو مقام بنایا وہ بلاشبہ عمران خان کی مسلسل محنت، جدوجہد اور اَنتھک کوشش کا مرہونِ منت ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی جیسی دو بڑی سیاسی قوتوں کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو منوانا ایک دیوانے کا خواب لگ رہا تھا مگر عمران خان کی سیاست میں مستقل مزاجی اور تبدیلی کے نعرے نے نوجوان نسل کو عمران خان کا دیوانہ بنا دیا اور ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کو سر جوڑنے پر مجبور کر دیا۔ بالآخر پاکستانی سیاست میں عمران خان کو وہ مقام ملا جس کی جدوجہد انہوں نے تقریباً 25برس قبل شروع کی تھی۔ یہ دور تحریکِ استقلال پر بھی آیا تھا، اُس دور میں ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان مرحوم کا بھی طوطی بولتا تھا، لوگ دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کر تحریک استقلال میں شامل ہو رہے تھے، اصغر خان کے استقبال کیلئے میلوں لمبے جلوس، جلسوں میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، تحریکِ استقلال کے اقتدار میں آنے کی نوید سنا رہا تھا، ہر طرف تحریکِ استقلال اور اصغر خان ہی نظر آرہے تھے، اقتدار کے ایوانوں کیلئے تحریکِ استقلال واحد پارٹی تھی جو سیاستدانوں کی محبوبہ بنی ہوئی تھی مگر اپنے غلط فیصلوں اور غلط حکمتِ عملی کے باعث اقتدار کی دیواروں کو چھونے سے پہلے ہی سیاسی پنچھیوں کے خوابوں، خیالوں کا محل زمین بوس ہو گیا۔ اصغر خان بھی گوشہ تنہائی میں چلے گئے اور پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ہی میدانِ عمل میں رہ گئیں۔

بڑے عرصہ کے بعد اب پاکستان کو عمران خان کی قیادت میں تحریکِ استقلال جیسی پارٹی ملی جس کے نعروں نے نئی نسل کو اپنا گرویدہ بنا لیا، کرپشن کے خلاف جدوجہد رنگ لے آئی اور میاں نواز شریف جیسے مضبوط ترین وزیراعظم کو قانون کی عدالت میں لاکر نااہل کروا دیا لیکن آج عمران خان ہی کی حکومت ہوتے ہوئے وطنِ عزیز کو اس وقت لاتعداد چیلنجز کا سامنا ہے جن کا مقابلہ دور اندیشی، تدبر اور بہترین حکمتِ عملی سے ممکن ہے۔ وفاقی حکومت جس منشور کا واویلا مچا کر اقتدار میں آئی، اُس پر عمل درآمد کی ابھی تک کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ اعلیٰ حکومتی قیادت کے قریب موجود بعض موقع پرست عناصر کا بھی اس بدحالی میں کلیدی کردار ہے۔ عالمی طاقتوں کے مہرے بھی پاکستان کے استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں نے عوام کو سخت مایوس کیا ہے۔ حکومت خود بھی خیالی دنیا میں رہتی ہے اور عوام کو بھی سہانے خواب دکھا کر خوش کرنے کی کوشش میں ہے۔ تحریک انصاف نے ابھی تک مایوسی اور مہنگائی کے سوا قوم کو کچھ نہیں دیا۔ غریبوں کے حقوق اور مہنگائی کے خاتمے کا اعلان کرکے اقتدار میں آنے والوں کے دورِ حکومت میں غریب رو رہا ہے اور مہنگائی کا بول بالا ہے۔ سابقہ اور تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے عوام کے بنیادی حقوق پر ہمیشہ ہی جھوٹ بولا۔ یہاں اربوں کا بجٹ تو منظور ہوتا ہے مگر کتے کے کاٹنے سے بچہ ماں کی گود میں ویکسین نہ ملنے سے مر جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی بہترین معاشی پالیسیوں کے باعث بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور عوام تک ان پالیسیوں کے ثمرات کو جھوٹ، فریب کے زور پر پہنچایا گیا۔ مہنگائی کو کم کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے حکومتی وزرا آج تک صرف مشورے ہی کرتے آئے ہیں۔

پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے سے قبل ہی بڑے پیمانے پر ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے پی ٹی آئی کو ملازمتوں سے متعلق مطالبے کا سامنا رہا ہے۔ حکمراں جماعت نے اپنے منشور میں ملازمتوں کی فراہمی کے لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، ہائوسنگ، صحت، تعلیم، سبز معیشت اور سیاحت کی نشاندہی کی تھی۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملازمتوں کے لیے نجی شعبے کے ساتھ مل کر اقدامات کیے جائیں گے، سوشل ویلفیئر نہ دینے والے اداروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، اس کے علاوہ لیبر ایکسچینج بھی قائم کی جائے گی۔ تاہم خوش کن وعدوں کے برعکس ابھی تک پی ٹی آئی حکومت کی ملازمتوں کی صورتحال بہت ہی خراب رہی ہے، اُلٹا ملک میں کاروباری مندی کی وجہ سے بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنے منشور میں 50لاکھ گھروں کی تعمیر کا اعلان بھی کیا تھا، پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد گھروں کی قلت ہے۔ شہری علاقوں میں 40لاکھ اور دیہی علاقوں میں 80لاکھ تک گھروں کی کمی پائی جاتی ہے اور لوگ کچی آبادیوں یا جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ پی ٹی آئی نے شہری علاقوں میں 20 لاکھ جبکہ دیہی علاقوں میں 35لاکھ مکانات تعمیر کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے اور یہ منصوبہ تاحال نادرا کی ویب سائٹ پر رجسٹریشن تک ہی محدود ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے منشور میں یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ 5سال میں پاکستان کو دنیا کی 100بڑی معیشتوں میں شامل کرانے کے لیے اقدامات کرے گی۔ پاکستان 2019کے آخر تک کاروبار کرنے کے لحاظ سے 136ویں نمبر پر تھا۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں نیچے جانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کاروبار کی ابتدا اور اسے جاری رکھنے کے لیے متعدد ضوابط کمزور اور غیر ضروری ہیں جبکہ متعلقہ اداروں میں نااہل منتظمین اور بدعنوان عناصر کی وجہ سے مزید مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔


بلاشبہ عمران خان کا پاکستان کو ایک ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کا خواب لائق تحسین ہے لیکن اب وقت کم اور مقابلہ انتہائی سخت ہے۔ ان حالات میں کٹھن اور کڑوے فیصلے ہی ملک و قوم کی تقدیر بدلتے ہیں، حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ اب زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ ملک میں معاشی بہتری کیلئے بیک وقت وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس وقت کاروباری اعتماد کا شدید فقدان پایا جاتا ہے جسے ہر حال میں دور کیا جانا چاہئے۔ مہنگائی جو اِس وقت عوام کیلئے وبالِ جان ہے اُسے کنٹرول کرنا ناگزیر ہے۔ اگر حکومت عوام کی مہنگائی اور بیروزگاری سے نجات دلا دے اور عوام کی مایوسی کافی حد تک ختم ہو سکتی ہے اور تحریک انصاف اپنی مدت بہ آسانی پوری کر سکتی ہے ورنہ عوام کی طرف سے کبھی بھی تبدیلی کا طبل بج سکتا ہے اور تحریک استقلال کی طرح تحریک انصاف بھی منظر سے غائب ہو سکتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)