چائے پانی

March 08, 2020

میں پچھلے دو ہفتے سے پاکستان میں تھا اور پاکستان پریمیئر لیگ کو سپورٹ کرنے کے لیے لندن سے آنے والی ’’پاک میڈیا کرکٹ ٹیم یو کے‘‘ کا حصہ بھی تھا، اس ٹیم نے کراچی اور لاہور میں دو میچز بھی کھیلے، کراچی اور لاہور کے ہوائی مستقر سے لے کر ملک کے تقریباً پانچ مختلف اداروں میں جانے کا اتفاق بھی ہوا لیکن ایک بار پھر تجربہ ہوا کہ اللہ کے فضل و کرم سے پورا وطن عزیز اور اس کے عوام چائے پانی اپنے ایجاد کردہ سسٹم کے بھروسے زندہ ہیں، کسی بھی محکمے کے چوکیدار سے لے کر اقتدار اعلیٰ کے ایوانوں میں براجمان کسی بھی اثر انداز ہونے والے مقتدر شخص تک‘ سب نے سائل اور اس کے کام کی نوعیت اور اپنی حیثیت اور درجے کے مطابق اپنا اپنا چائے پانی اور قیمت مقرر کر رکھی ہے۔ آپ وزیراعظم ہائوس سے گورنر ہائوس یا وزیراعلیٰ ہائوس تک چلے جائیں، دروازہ کھولنے والے سے لے کر پانی پلانے اور اپائنٹمنٹ بنانے والے تک کو جب تک چائے پانی نہ دیا جائے، آپ کا قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس قسم کا رویہ فقط سرکاری اداروں یا دفاتر تک ہی محدود نہیں بلکہ بلحاظ سارے ملک میں نیم سرکاری اور نجی اداروں میں بھی یہی پریکٹس کی جا رہی ہے۔ میرے جیسا کوئی شخص جو بڑے عرصہ سے کسی انسانی معاشرے میں رہتے ہوئے چند روز کے لیے یا چند دنوں کے لیے اپنے آبائی معاشرے میں آتا ہے اور دیکھتا ہے کہ یہاں نہ رویے خالص ہیں، نہ اخوت و محبت، دوستی اور نہ ہی ہوا۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خوراک اور پانی بھی خالص نہیں تو وہ ہر قدم اور ہر بات پر جلتا کڑھتا، بھنتا اور سلگتا رہتا ہے، لیکن پھر مجھے بتایا جاتا ہے کہ بھائی! یہاں معمولات زندگی یونہی چلتے ہیں اور کسی کو برا بھی نہیں لگتا! یعنی یہاں یہ برائی نہیں ہے کہ ہر کوئی دوسرے کی جیب، حیثیت اور عہدے کے حساب سے اس کے ساتھ ملتا اور دوستی رکھتا ہے۔ یہاں کھرے سچے جذبوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، میرے علم میں لایا گیا کہ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکومتی شخصیات کی طرف سے اعلان کردہ اسکالرشپس اور انعامات اور مختلف مدوں میں دی گئیں امدادی رقوم تک اول تو کسی کی رسائی ہی نہیں اور اگر خوش قسمتی سے مل بھی جائے تو اچھا خاصا چائے پانی وصول کرنے کے بعد ہی انہیں ریلیز کیا جاتا ہے، کیونکہ رشوت کا یہ مکروہ دھندہ اور اس کے تار و پود کچھ اس طرح سے باہم شیر و شکر ہیں کہ داد رسی یا شکایت کے لیے کوئی دروازہ بچا ہی نہیں۔ اس قوم کی ذہنی پستی کا حال یہ ہو چکا ہے کہ انسانی موت پر بھی چائے پانی کی روایت کو زندہ رکھتے ہیں، موت کا سرٹیفکیٹ دینے والے سے لے کر مردے کو نہلانے والے اور قبر کھود کر دفنانے والے تک، سب کے منہ کو چائے پانی کچھ اس طرح لگا ہوا ہے کہ اس کے بغیر مرنے والے کو قبر تک نصیب نہیں ہوتی۔

چائے پانی کا یہی زریں اصول اعلیٰ سیاسی و حکومتی شخصیات سے لے کر نوکر شاہی تک میں بدرجہ اتم کارفرما ہے لیکن یہاں اس اصول کو کٹ یا کمیشن کا نام دے کر جائز بنا لیا گیا ہے اور یہ کمیشن اربوں روپے تک بھی ہوتا ہے۔ ’’کھائو پیو پکڑائی نہ دو‘‘ کے مروجہ اصول کی وجہ سے جہاں بحیثیت قوم اخلاقی انحطاط کا شکار ہے وہاں ضمیر کی سودے بازی نے قوم کو بےشرمی اور بےغیرتی کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے، کم و بیش ہر شخص اپنی قیمت اپنے عہدے کے حساب سے لگوانے کے لیے تیار کھڑا ہے، قومی حمیت نام کو نہیں، جی حضوری اور چاپلوسی کا ایک ایسا نظام وجود میں آ چکا ہے کہ مختلف طریقوں سے ہاتھ پھیلانا اب معیوب نہیں رہا، رشوت خوری کا طریقہ صرف پیسہ ہی نہیں رہا بلکہ اس کے مختلف سلجھے ہوئے طریقے ایجاد کر لیے گئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس نظام کے حامی رفعتیں پاتے ہیں اور خودی کا پلو پکڑنے والے نان و نفقہ کے حصول کی تگ و دو میں حیران و پریشان یہاں وہاں زندگی کی دوڑ میں ہانپتے دیکھے جا سکتے ہیں، اس قماش و دماغ کے لوگ اسی معاملے میں جان تک گنوا بیٹھتے ہیں کہ ضمیر کی موت ان کی طبعی موت ہو سکتی ہے۔

اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران میں خود بھی اس چائے پانی کے نظام سے گزرا ہوں، سوچ رہا ہوں کہ اب تو اس قوم کے مجموعی مزاج سے وہ قومیں بھی آشنا ہو چکی ہیں جہاں میں مستقل مقیم ہوں، یقینی طور پر وہ مجھے بھی اسی قوم کا ایک فرد جان کر میرے بارے میں وہی مخصوص رائے رکھتے ہوں گے جو صدفیصد میرے لیے شرم کا مقام ہے اور ان لاکھوں پاکستانیوں کے لیے بھی جو زندہ ضمیر کے ساتھ اندرون و بیرون ملک مقیم ہیں، میرے اس نکتے یا نوحے کا قابل افسوس پہلو تو یہ ہے کہ میں چائے پانی اور مفاداتی فلسفہ کے اس شرمناک قومی رجحان کی شکایت کس سے کروں، کیا حکومت سے، مقننہ یا عدلیہ سے یا قانون نافذ اور اس کی عملداری کروانے والے کسی ادارے سے؟ کیونکہ یہ سبھی ایک ہی حمام میں ہیں! تو پھر میرے لیے کیا آپشن باقی رہ جاتا ہے کہ یہ معاشرے مجھے جو پیمانہ دیتا ہے میں اس میں موم کی طرح فٹ ہو جائوں یا آئیڈیل ازم اور حق سچ کا راگ الاپتے ہوئے چائے پانی کے اس نگار خانے میں طوطی کی آواز بن کر خوار ہوتا رہوں؟