گردوں کا عالمی دن...!

March 12, 2020

جسم کا ہر اعضا اپنا کام صحیح طریقے سے کرے تو انسان تندرست و توانا نظر آتا ہے۔ تاہم جسم کے کسی بھی حصے میںتکلیف ہو تو گویا پورا جسم دکھتا ہے اور ساری توجہ اس جانب مبذول ہوجاتی ہے۔ اللہ نے جسم کے تمام اعضا کا کوئی نہ کوئی کام مقرر کیا ہے لیکن ہم ان کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہوئے اپنے روزمرہ معمولات میں لاپرواہی برتتے ہیں، جس کا خمیازہ ہمیں عمر کے کسی بھی حصے میں (بالخصوص30سال کے بعد) بھگتنا پڑسکتا ہے۔ جسم کے کچھ اعضا انتہائی اہم کام سرانجام دیتے ہیں، جن میںگردے بھی شامل ہیں۔

گردوں کی صحت اور ان کی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور لوگوںکو اس میں ہونے والے امراض سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے ہر سال دنیا بھر میں مارچ کے دوسرے ہفتے میں جمعرات کے روز گردوں کا عالمی دن (World Kidney Day)منایا جاتا ہے، جس کا آغاز 2006ء میں کیا گیا تھا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک میں مختلف تقریبات اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں ماہرین گردوں کے امراض اور ان کی حفاظت سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔ آج گردوں کے عالمی دن کے موقع پر آئیے ہم بھی ان کے افعال، صحت اوربیماریوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

اہمیت اور افعال

ریڑھ کی ہڈی کے دائیں اور بائیں طرف کمر کی نچلی جانب نصف دائرے کی شکل میں موجود عضو گردے کہلاتے ہیں۔ ایک صحت مند نوجوان مرد کے گردوں کی لمبائی 11سینٹی میٹر جبکہ ایک صحت مند لڑکی کے گردوں کی لمبائی 10سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ گردوں کا اہم فعل انسانی جسم میں موجود خون کو صاف کرنا ہوتا ہے۔

گردوں سے روزانہ 24گھنٹوں کے دوران 1500لیٹر خون گزرتا ہے۔ گردوں میں موجود باریک نالیاں اور جالی دار کپ خون کو چھاننے کے بعد صاف خون کوانسانی جسم میں دوبارہ شامل کردیتے ہیں۔ فلٹر ہونے کے دوران خون میں موجود زائد نمکیات اور پانی پیشاب کی شکل میں انسانی جسم سے باہر خارج ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی بھی ایک گردے کی کارکردگی متاثر ہوجائےتو انسان کی زندگی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

امراض و اسباب

اس وقت دنیا بھر میںتقریباً 85کروڑ افراد گردوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیںجبکہ ہر 10میںسے ایک شخص کو گردوںکی دائمی بیماری لاحق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 2040ء تک دنیا بھر میںطبی اموات کی یہ پانچویں بڑی بیماری ہوگی۔ ترقی یافتہ ممالک میںڈائلیسس اور گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن پر صحت کے سالانہ بجٹ کا 2سے 3فیصد خرچ ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں ایک کروڑ 70لاکھ سے زائد افراد گردوں کے امراض کا شکار ہیں، جن میںگردوں کی دائمی بیماری (کرونک کڈنی ڈیزیز) اور گردے میں پتھری قابل ذکر ہیں۔ گردوں میں خرابی کی کئی وجوہات ہیں، جن میںٹائپ 1اور ٹائپ 2ذیابطیس، ہائی بلڈپریشر، دل اور خون کی شریانوں سے متعلق بیماریاں، موروثی گردوں کی بیماری اور موٹاپے جیسی بیماریاں شامل ہیں۔

گردوں کی حفاظت

آپ کی ذرا سی لاپرواہی آپ کو گردوں کی خرابی یا گردوں کے امراض میں مبتلا کرسکتی ہے۔ تاہم اگر کسی شخص کو گردے کا مرض لاحق ہوجائے تو بروقت تشخیص اور ابتدائی علاج سے بیماری کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ گردوں کی بیماری کی روک تھام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

پرائمری پریوینشن:گردے کی بیماری کا عمل شروع ہونے سے پہلے اس کا سدباب کرنا۔

سیکنڈری پریوینشن:احتیاطی تدابیر اختیار کرنا، جس کی بدولت گردے کی بیماری کی جلد تشخیص اور فوری علاج ممکن ہوجاتا ہے اور بیماری بڑھنے سے رُک جاتی ہے۔

ٹرشیری پریوینشن:گردے کی بیماری سامنے آجائے تو اس کو بڑھنے اور زیادہ سنگین پیچیدگیوں کی طرف جانے سے کنٹرول کرنا۔

اگر ابتدائی روک تھام کی بات کریں تو اس کے لیے لازمی ہے کہ آپ خود کو فٹ اور فعال رکھیں، جس کے لیے ورزش بےحد ضروری ہے۔ اس کے علاہ بلڈ پریشر متوازن رکھ کر گردوں کے موذی امراض کے خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی بلڈ شوگر لیول کو کنٹرول میں رکھیں۔

گردوں کے مریضوں کی نصف تعداد ذیابطیس کے باعث ہی اس مرض میںمبتلا ہوتی ہے۔ گردوں کو صحت مند رکھنے کے لیے روزمرہ خوراک میں نمک کا استعمال کم کریں یعنی دن بھر میں 5سے6گرام نمک کھائیں۔ باہر کے کھانوں بالخصوص جنک فوڈز کھانے کے بجائے گھر کے بنے کھانوں کو فوقیت دیں کیونکہ وزن کا بڑھنا بھی گردوں کی خرابی کی وجہ بن سکتا ہے۔ تمباکو نوشی ترک کریں اور زیادہ سے زیادہ پانی پینا یقینی بنائیں۔

ماہرین ایک بالغ انسان کیلئے روزانہ2سے 4لیٹر پانی پینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس سے پیشاب میں پتھری بنانے والے منرلز(جو زیادہ تر کیلشیم اوکزیلیٹ پر مشتمل ہوتے ہیں) کو خارج ہونے میں مدد ملتی ہے، یہی منرلز کم پانی کی وجہ سے گردے میں جم کر پتھری کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

پتوں والی سبزیاں، کروندا (کرینبیری)، ہلدی، لہسن، ادرک، لیموں، زیتون کا تیل، لوبیہ، تلسی، اجوائن، سیب، انگور اور انار جیسی غذائیں کھانا گردے کے امراض میںمفید ہوتی ہیں۔ ان تمام باتوں کا خیال کرکے گردوں کی بیماری سے بچا جاسکتا ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ ہر کچھ عرصے بعد بلڈ شوگر، بلڈ پریشر، یورین ڈی آر اور الٹراساؤنڈ جیسے ٹیسٹ بھی کرواتے رہیں اور معالج سے مشورہ کریں۔