نوجوان ڈپریشن کا زیادہ شکار کیوں؟

March 15, 2020

اگر ہم ذہنی تناؤ یا ڈپریشن کے بارے میں انٹرنیٹ پرمواد تلاش کرنے بیٹھیں تو ان کے لنکس کا متن پڑھ کر ہی ڈپریشن ہونے لگتاہے اور اگر آپ ان میں سے کسی ایک لنک پر بھی کلک کریں تو مزید متعلقہ لنکس سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بہرحال ان تمام تر مضامین اور مواد کا مطالعہ کرنے کےبعد یہی چیز سامنے آتی ہےکہ ڈپریشن کے نقصانات و علامات کی آخری حد اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں ختم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ زیرِنظر مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ آخر نوجوان ڈپریشن کا زیادہ شکار کیوں ہیں؟

سماجی تنہائی

آج کے دور کو دیکھیں تو نوجوان سوشلائزیشن (سماجی میل جول) سے زیادہ سوشل میڈیا کی کارستانی کا شکار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سوشل سائٹس نے ہمیں ایک دوسرے سے باندھ رکھاہے،درحقیقت یہ ہمیں تنہا کررہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جتنا زیادہ طبقات ، رہن سہن اور طرز زندگی کا فرق نظر آتاہے، اتنا ہی زیادہ لوگ احسا س کمتری کا شکارہوتے چلے جاتے ہیں۔

سیدھی سی بات ہے کہ اگر کسی کے رشتہ داروں یا دوستوں میں کوئی آئے دن غیرممالک کی سیروتفریح، مہنگی ہوٹلنگ والی سیلفیاں شیئر کررہاہے تو اس کے اندر کچھ نہ کچھ حد تک احسا س کمتری پیدا ہوگا اور وہ ا س سماجی تفریق کو اپنے ذہن پر طاری کرلے گا اور یوںاس کے لاشعور میں کہیں یہ بات جم کر بیٹھ جائے گی کہ دنیا تو ان لوگوں کی ہی ہے اور میں تو بیکار ہوں۔ اس کا سیدھا سا حل یہی ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال کم کیا جائے اور اسے صرف وقت گزاری (ٹائم پاس) کے طور پر لیا جائے نہ کہ اس سے متاثر ہوا جائے۔

ذاتی تنہائی

دوسری چیز تنہائی ہے، جو انسان کو اندر ہی اندر کھاتی رہتی ہے۔ تنہائی کے بارے میں ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ 16سال سے24سال کی عمرکے نوجوان زیادہ تنہائی محسوس کرتے ہیں۔ تنہائی جب بیماری کی حد تک بڑھ جاتی ہے تو ذہن و جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں بھولنے کا مرض یعنی ڈیمینشیا اور دیگر امراض سمیت منفی روّیے سامنے آتے ہیں۔

اس کاحل یہی ہے کہ لوگوں سےمیل جول رکھا جائے، دوستیاں کی جائیں اور اگر خونی یا دیگر رشتہ دار دور ہیں توان سے رابطے میں رہا جائے، کسی کمیونٹی سینٹر میں رضاکارانہ خدمات پیش کی جائیں، کچھ نہ ہو تو پالتو جانور رکھ لیا جائے، دل کی بات کی جائے اور اپنی تنہائی کو سوشل میڈیاپر بانٹنے کے بجائے اصل زندگی میں کسی کے ساتھ شیئر کیا جائے۔

دل ہلکا کرنا

بہت ساری تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ رونے کا عمل انسان کو ہلکا پھلکا کردیتاہے۔ کسی سے اپنی پریشانی بیان کرنے سے دوسروں کے دلوںمیںہمدردی کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں اور سماجی تعلقات بنانے میں مدد ملتی ہے۔

ملازمت یا کاروباری معاملات

نادیہ حسین برطانیہ کی مشہور شیف ہیں۔2015ءمیں دی گریٹ برٹش بیک آف (The Great British Bake Off)ایوارڈجیتنے کے بعد سے وہ برطانیہ میں مختلف اقسام کے کھانے پکانے اور دیگر مشہور ٹیلی ویژن شوز کی میزبانی کررہی ہیں یا ان میں حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم ، کچھ عرصے سے وہ ذہنی صحت کی جدوجہد کو عام کرنے کے لئے بھی مشہور ہوچکی ہیں، خاص طور پر انزائٹی کے حوالے سے، جس سے وہ خود بھی برسوں سے نبرد آزما رہی ہیں۔ نادیہ حسین کا کہناہے کہ آج کی افرادی قوت میں بالخصوص سب سے کم عمر بالغ افراد (جن کی عمریں18سے30سال ہیں) کو ذہنی صحت کے چیلنجز کا سامنا ہے اور وہ اس سے نمٹنے کے لئے زیادہ تیار نہیں۔

برطانیہ میں3ہزار884ورکرز سے کیے گئے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ 30سال کی عمر تک ، ان میں سے95فیصدافراد کو ذہنی صحت کے چیلنجز کا سامنا رہا ہے، وہ یا تو خود ذاتی طور پر یا دوست، گھر کے کسی فرد یا ساتھ کام کرنے والے کی وجہ سے ذہنی انتشار کا شکار ہوئے تھے۔ چار میں سے تین افراد کو ذاتی چیلنجز کا سامناتھا اور ان میں سے نصف افراد نے خود کشی کرنے کے بارےمیں سوچا یا انہیں اپنی زندگی ختم کرنےکا خیال آیا ۔

نادیہ نے یہ بھی دیکھا کہ18سے30سال کی عمر کے ان افراد نے اپنی زندگی میں جو دباؤ جھیلا، وہ ان کے سینئر ساتھیوں سے زیادہ تھا۔ امکان ہے کہ وہ قرض کے بارے میں فکر مند ہوں گے یا اپنے بلوں کی ادائیگی کے لئے جدوجہد کرتے ہوں گے ، جس سے ان کے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے مسائل اپنے آجروں کو بتانے میں سینئر ساتھیوں سے زیادہ ہچکچاتے ہیں۔

26سال سے کم عمر 10میں سے چار ورکرز نے بتایا کہ انہیں تعلیم کے حصول کے دوران ملازمت قبول کرنے سے پہلے اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنے کے بارے میں کوئی معلومات یا مشورہ نہیں ملا۔40سال سے زیادہ عمر کے10ورکرز میں سے صرف2نے بتایا کہ انہوں نے تربیت حاصل کی تھی۔

کیا کیا جائے ؟

درج بالا حقائق اور پہلوئوں سے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی و استحکام میں نوجوان طبقہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے لیکن اگر وہ ذہنی خلفشار، انتشار، ڈپریشن یا انزائٹی کا شکار رہے گا تو اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاپائے گا۔ اس لیے ہمارے تعلیمی ادارے ہوں یا کاروباری ادارے، انہیں ہر سطح پر اپنے طلبا اور ورکرز کی ذہنی صحت کا خیال رکھنا چاہئے اور انھیں بہتر ماحول فراہم کرنا چاہئے۔