میں اور میری تنہائی

March 29, 2020

آج جب پاکستان سمیت ساری دنیا کورونا وائرس کی وجہ سے شٹر ڈائون ہے، مجھے بھی دوسروں کی طرح تنہائی کا سامنا ہے۔ برطانیہ بھر میں تعلیمی ادارے، بیشمار دفاتر، کلب، جمنازیم، اسٹیڈیمز سب بند ہیں، ٹرانسپورٹ آدھی سے بھی کم ہو چکی، بہت سے بڑے اسٹورز یا تو بند ہیں یا ان میں اشیا کی کمی ہے، ادویات کی قلت، ڈاکٹر اور اسپتال مریضوں سے دور بھاگ رہے ہیں،جنازے کے سوا ہر قسم کے اجتماعات پر حکومت کی طرف سے پابندی ہے ۔جیسے غالب کی نظر میں؎

رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے

نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں

دنیا بھر میں چھ لاکھ سے زیادہ افراد اس وائرس کا شکار ہوئے، ہزاروں اموات روزانہ کا معمول بن چکی ہیں لیکن ایسے مخدوش اور خوفناک حالات میں بھی ہمارے ہم وطن اور ہم مذہبوں نے دینی عبادات و مناجات جہاں زیادہ بڑھا دی ہیں ساتھ ساتھ اپنے کاروبار اپنی دکانوں پر اشیاء کی قیمتیں بھی پانچ سو فیصد بڑھا اور زیادہ منافع کما کر موقع شناس ہونے کا ثبوت دیا ہے حالانکہ حرام کھانے والے کافروں نے اپنےا سٹورز پر مال کی سپلائی تو بڑھائی لیکن قیمتیں وہی پہلے والی ہی رکھیں بلکہ عمر رسیدہ اور ضرورتمند افراد کو اشیا ان کے گھروں تک پہنچانے کا بندوبست بھی کیا۔مکمل تنہائی کے اس دور میں جب دوست احباب کے ساتھ ملنا ملانا اور دفتر تک جانا بھی مفقود ہے۔ ایسی گھٹا ٹوپ تنہائی میں پاکستان کا ایک خیالی لیکن دل پذیر نظارہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے جیسا کہ ڈسکریشن پاور رکھنے والی حکومتی اور ریاستی قوتوں نے ملک کی تمام تر سیاسی اپوزیشن کو اس مہلک وائرس سے لڑنے کے لئے یکجا اور ایک پیج پر لانے کا فیصلہ کیا ہے، فیصلہ ہو چکا ہے کہ جور و استبداد کی بساط لپیٹ دی گئی ہے اب ہر سو سیاسی امن و امان ہوگا اب تمام صلاحیتیں پاکستانی شہریوں کی صحت اور فلاح و بہبود پر صرف ہوں گی اب ہر شب کی تاریکی میں چاندنی روپہلی ہوگی، سورج کی کرنیں زر دوزی کریں گی، خدمت انسانی کا جذبہ ندی کے شفاف پانی میں سنگریزوں کی طرح چمکے گا۔

میری تنہائی شاید ’’یوٹوپیا‘‘ کی سوچ تک پہنچ چکی ہے، یوں لگتا ہے حکومت اس کڑے وقت میاں شہباز شریف کے ’’ڈینگی کے تجربہ‘‘ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں کورونا سے نبردآزما ہونے کے لئے میدان میں آنے کی درخواست کرے گی، ہر طرف اخوت کا دور دورہ ہوگا، حکومت کے لئے ایسی بھی کیا مشکل ہے عوام کے لئے سر چھپانے کی جگہ، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا اور دو وقت کا کھانا تو فراہم ہو ہی سکتا ہے، حکومت اپنے تمام اختلافات بھلا کر حزب اختلاف ملا لے گی عداوت و رقابت، باہمی کدورت، آپسی بیر، حسد اور کینہ پروری، جھوٹی شہادتیں، جھوٹے مقدمے، چور ڈاکو کا لایعنی شور و غوغا یہ سب لعنتیں ختم ہو جائیں گی، زیردست اور زبردست قانون کے سامنے سب برابر ہوں گے۔ میری اس سوچ کو میری تنہائی کا ایک رومانی نقطہ نظر کہا جا سکتا ہے کیونکہ میں پاکستان کے لئے ایک مثالی مملکت کے تصورات کو حقیقت بنا کر پیش کر رہا ہوں جہاں معاشی انصاف میسر ہوگا اور بحالت مجموعی مبنی برانصاف فیصلے ہوں گے۔ میری اس فاش تنہائی میں سوچوں کا یہ رخش جو کہیں تھمتا نہیں ہے یکدم یہ میرے یوٹوپیائی خیالات کو روندتا ہوا اپنی اگلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کے ہنہنانے لگا کہ؎

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

آفت کے اس ماحول میں جب امریکہ 500 کھرب ڈالر اور برطانیہ 330کھرب پائونڈ کورونا سے نمٹنے کے لئے مختص کر رہا ہے، پاکستان میں کوئی ایسی حکومتی کوشش نظر نہیں آتی اگر چند سو ارب رکھے گئے تو کیا یہ رقم 22ارب کی آبادی کے لئے کافی ہے؟ وزیراعظم علانیہ کہہ چکے کہ ہمارے پاس اس وبا کو کنٹرول کرنے کے لئے انتظامات ہی نہیں، وہ غیر ملکی قرضوں کی معافی کا مطالبہ بھی کر چکے وہ کہتے ہیں اس وقت مجھ سے صرف کورونا کی بات کی جائے۔ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری، میڈیا کو اظہار رائے کی آزادی یا اپوزیشن کے ساتھ حالیہ حالات میں تلخی دور کرنے کے لئے اکٹھے بیٹھنے جیسی باتیں ان کے لئے ایشوز ہی نہیں، کوئی پُرمغز صحافی اقتصادی و معاشی بدحالی کی بات چھیڑ بھی دے تو ٹکا سا جواب ملتا ہے وہ اپنے دوست مشیر زلفی بخاری کی تفتان بارڈر پر کی گئی مجرمانہ کوتاہی پر بھی بات کرنے کے لئے تیار نہیں، کوئی مقتدر حکومتی شخصیت اس نہج پر سوچنے کو تیار نہیں کہ ابھی تو کورونا کی صبح کاذب ہے اور آپ خواب آلود دھندلکے میں اپنے زمینی حالات و حقائق کو دیکھ کر فیصلے کرنے کی بجائے دیگر دنیا کے نقش قدم پر چلنے کی ناکام کوشش میں مگن ہیں۔ آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ سرجھکانا بارگاہ ایزدی میں ہو یا انسانیت کی بھلائی و بہتری کے لئے یہ ایک سجدہ بندے اور بندہ نواز کے درمیان ایک ایسا رشتہ پیدا کر دیتا ہے کہ وہ امید و روشنی اور یاس و حسرت کی دیواروں سے نکل کر بلندیوں پر جا کھڑا ہوتا ہے یعنی ؎

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزاروں سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

میں اور میری تنہائی،اپنے اس جذباتی اور نفسیاتی کھچائو میں بھی پاکستان کے سیاسی،معاشی اور معاشرتی عدم استحکام کے تاروپود بننے میں مصروف ہے یہ درست ہے کہ میں ایک ترقی یافتہ ترین ملک کا باسی ہوں برطانوی حکومت اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اگر یہ لاک ڈائون طوالت پکڑے تو وہ میرے نان نفقے کا بندوبست کرے لیکن مجھے اپنے آبائی وطن کی بھی تو فکر ہے اور میری اس تنہائی یا سیلف آئسولیشن کا 80%وقت پاکستان کی حکومت کے بے مصرف فیصلوں پر جلتے بھنتے گزرتا ہے۔ کہتے ہیں کبھی کبھی تنہائی نعمت خداوندی سے کم نہیں ہوتی یہ درست ہے لیکن اگر یہ تنہائی حد سے بڑھ جائے تو شوریدہ سر بھی ہو جاتی ہے ایک ہفتہ ہونے کو آیا وقت کے ساتھ یہ تنہائی بڑھتی جا رہی ہے پچھلے 28سال میں جب پہلی دفعہ لندن آیا آج تک ایسی تنہائی میسر نہیں آئی جہاں نہ احباب کی قربتیں نہ دنیا کی رونقیں،مضبوط قویٰ کے مالک بھی افسردگی کا شکار اور دشت غم میں پڑے نظر آتے ہیں آدھے سے زیادہ لوگ ماسک زدہ اور کسی قسم کے جذبات سے عاری نظر آتے ہیں کوئی ماتم،آہ و فغاں یا گریہ زاری تو نہیں ہے لیکن خوفزدگی ہر آنکھ سے ضرور عیاں ہوتی ہے کیونکہ بظاہر تو برطانیہ سمیت کوئی حکومت اس صورتحال کی 100%عکاسی اپنے عوام کے سامنے نہیں کر رہی بلکہ 10فیصد سے زیادہ کسی کو علم نہیں۔شنید یہی ہے کہ حالیہ صورتحال چار سے چھ مہینے تک یونہی رہے گی یا اس سے بھی زیادہ خراب صورتحال آنے والے دنوں میں ہو سکتی ہے چنانچہ اپنا تو حال اس تنہائی میں عبدالحمید عدم کے اس شعر کی طرح ہے کہ ؎

بس جی رہے ہیں، اتنا غنیمت ہے اے عدم

کس طرح ہو رہی ہے بس،کچھ نہ پوچھئے