کورونا، یورپ اور امریکا میں صورتحال بدترین، حالات ٹھیک ہونے میں 6 ماہ لگ سکتےہیں، برطانیہ کا انتباہ

March 30, 2020

لندن، واشنگٹن (ایجنسیاں، جنگ نیوز) دنیا بھرمیں کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ یورپ اور امریکہ میںصورتحال بدترین ہوگئی ہے۔ مصدقہ متاثرین کی تعداد 6لاکھ 80 ہزار سے زیادہ جبکہ وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد بھی 33,526 ہوگئی۔امریکہ میں 2,363 ہلاکتیں ہوگئیں۔ صرف اٹلی میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں 889 ہلاکتیں شامل ہیں۔ سابق فرانسیسی وزیر وائرس کے ہاتھوںلقمہ اجل بن گئے۔حالات سے دال برداشتہ جرمن وزیرخزانہ نے خودکشی کرلی۔برطانوی حکامنے انتباہ کیا ہے کہ حالات ٹھیک ہونے میں 6ماہ میں لگ سکتے ہیں۔ اموات 20ہزار تک کنٹرول کرلیں تو بڑی کامیابی ہوگی۔ لاک ڈائون جون تک جاری رکھا جائے۔برطانیہ میں اب تک کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 1228 ہو گئی ہے۔گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک میں 209 اموات ہوئی ہیں۔ یہ تعداد سنیچر کے روز ہونے والی 260 اموات سے کم ہے۔ 190 اموات انگلینڈ میں ہوئیں۔ ویلز میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 10 اموات ہوئیں جنکہ شمالی آئرلینڈ میں چھ اور سکاٹ لینڈ میں ایک ہلاکت ہوئی۔برطانیہ کے محمکہ صحت کے مطابق اس وقت یہاں 19522 مصدقہ کیسز ہیں۔اٹلی کے بعد سپین اور فرانس کی صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے۔اٹلی میں دس ہزار 23 افراد مہلک وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ سپین میں 5 ہزار 9 سو 82 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ چین میں مزید 5 افراد کی ہلاکت کے بعد تعداد 3 ہزار 3 سو ہو گئی۔ چینی مین لینڈ پر نوول کرونا وائرس کے45نئے مصدقہ مریضوں کی تصدیق ہو گئی۔اردن میں کورونا وائرس سے پہلی موت ہو گئی جبکہ 23نئے کیسز کی تصدیق بھی ہوئی۔ مہلک وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد 235ہو گئی۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی کو لاک ڈاون کا سامنا ہے۔ یورپ میں کورونا سے اموت کی تعداد 20ہزار سے تجاوز کرگئی جبکہ وائرس کی وجہ سے کچھ ممالک کے حکام نے صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا ہے۔جرمنی کی ہیسے ریاست کے وزیر خزانہ تھامس شیفر نے مبینہ طور پرخودکشی کرلی۔ جرمن میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 54 سالہ تھامس شیفر نے ممکنہ طور پر کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کے باعث یہ قدم اٹھایا۔امریکی صدر نے نیویارک کو قرنطینہ میں تبدیل کرنے کی تجویز مسترد کردی۔ کینیڈا کی خاتون اؤل صحت یاب ہو گئیں۔دنیا بھر میں اب تک 31 ہزار افراد مہلک وائرس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ امریکا میں متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار سے بڑھ گئی۔ دنیا بھر میں مرنے والوں کی تعداد 30 ہزار 880 ہو گئی۔ متاثرہ ممالک کی فہرست میں امریکا پہلے نمبر پر آ گیا۔کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد ایک لاکھ 24 ہزار سے تجاوز کر گئی۔مزید 6 افراد کی ہلاکت کے بعد مرنے والوں کی تعداد2,363ہو گئی۔ امریکی صدر نے نیویارک کو قرنطینہ میں تبدیل کرنے کی تجویز مسترد کردی، صدر ٹرمپ کا کہنا تھا یہ فیصلہ وائٹ ہاؤس کے کرونا ٹاسک فورس کی تجویز پر کیا، نیو یارک میں 52 ہزار سے زائد کیسز موجود ہیں جو امریکا بھر میں مریضوں کی آدھی تعداد کے برابر ہیں۔اسپین میں 5 ہزار 9 سو 82 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔کوورونا وائرس کے باعث اس وقت دنیا کی ایک تہائی آبادی کو لاک ڈاون کا سامنا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے کچھ ممالک کے حکام نے صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا ہے جبکہ چین کے شہر ووہان میں 2 ماہ کے لاک ڈائون کے بعد معمولات زندگی بحال ہونے لگے۔ دوسری جانب امریکا میں 3 دنوں میں اموات میں دگنا اضاہ ہوا ہے جس کے بعد اموات کی تعداد 2200 سے زائد ہوگئی ہے۔ امریکا میں ایک چوتھائی سے زائد اموات صرف نیویارک شہر میں ہوئی ہیں۔ طبی ماہرین کا خدشہ ہے کہ اٹلی کے بعد نیویارک کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوسکتا ہے، نیویارک کے اسپتالوں میں حفاظتی طبی سامان اور وینٹیلیٹرز کی کمی ہے۔برطانیہ کی ڈپٹی چیف میڈیکل افسر ڈاکٹر جینی ہیریز نے کہا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے ملک میں لگائی جانے والی پابندیوں کو ابھی ایک ہفتہ ہوا ہے اور وزیرِ اعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ ہر تین ہفتوں بعد ان پابندیوں کی افادیت کا جائزہ لیا جائے گا۔انھوں نے یہ بات برطانیہ میں کورونا وائرس کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر دی جانے والی پریس بریفنگ میں کہی۔ دوبارہ سے عام زندگی میں فوری واپسی ’بہت خطرناک‘ ثابت ہو سکتی ہے۔اگر ہم ابھی رک گئے تو ہماری ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔ پابندیوں کو آہستہ آہستہ کم کیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر ہیریز کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کے نتائج ہمیں دو سے تین مہینوں میں نظر آئیں گے اور تقریباً چھ ماہ لگیں گے یہ جائزہ لینے کے لیے کے ’ہم کب تک معمولات زندگی بحال کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اس سے بھی زیادہ وقت تک رہیں۔ ان کا یہ مطلب نہیں تھا کہ پابندیاں چھ ماہ تک رہ سکتی ہیں، یہ ہدف تبدیل ہوتا رہے گا۔ سائنسدانوں کے مطابق برطانیہ میں روزانہ ہونے والی اموات میں اگلے ایک سے دو ہفتوں میں ’مزید اضافہ‘ ہو گا۔ اس حوالے سے فیصلوں کا وقت بہت اہم ہے اور لوگوں کو چاہیے کے وہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر عمل کریں۔ یہ پابندیاں تب تک رہیں گی جب ہمیں اس حوالے سے یقین ہو جائے گا کہ اب یہ پابندیاں اٹھائی جا سکتی ہیں۔