شب برأت کا پیغام

April 08, 2020

تحریر:مفتی عبدالمجید ندیم۔۔برمنگھم
شبِ برات کی حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرامؓ سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، حضراتِ محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے لحاظ سے کمزور ہو لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہو جائے تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا دس صحابہ کرا مؓ سے اس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحا بہ کرا مؓ سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیا د اور بے اصل قرار دینا با لکل غلط ہے۔ اس با ت میں کو ئی شک نہیں ہے کہ رمضان کے بعد جس مہینے میں نبی اکرم ﷺ نے سب سے زیا دہ روزے رکھے ہیں وہ شعبا ن ہی کا مہینہ ہے ۔گویا کہ اس مہینے میں آپ ﷺمسلما نوں کو یہ پیغام دینا چا ہتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ تم پر سایہ فگن ہوا چا ہتا ہے ۔اب تمہیں اپنے آرام و سکو ن کو چھوڑ کر دن بھر روزے اور رات کو عبا دتِ الٰہی میں مشغول ہو نا پڑے گا ۔اگر شب برات کو مسلمان رات کو نوافل ادا کریں ،تلاوتِ کلا م مجید کریں ،ذکر و اذکا ر کا اہتما م کریں اور دن کو روزہ رکھیں اور ان کی نیت و ارادہ یہ ہو کہ وہ اس کے ذریعے رمضان المبا رک کی تیاری کررہے ہیں تو میرا یقین ہے کہ انہیں ثواب کے ساتھ رمضان کے استقبا ل کی تیاریوں کا اجر بھی ملے گا ۔ اس رات کا دوسرا بڑا پیغا م یہ ہے کہ مسلما نوں کو توحید پر قائم رہتے ہو ئے بندگانِ خدا کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست طریقے سے استوار کرنا چا ہیے۔ یہ رات بتا تی ہے کہ اسی فرد کی عبادت و ریاضت قبو ل ہو تی ہے جو اپنے آپ کو شرک سے محفوظ رکھتا ہے اور تو حیدِ الٰہی پر کا ربند ہے ۔اس کے ساتھ ہی اس کا دل ہر طرح کے کینے اور عداوت سے پا ک ہے ۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ انہی افراد کی دعا ئیں اور منا جا ت قبول فرما تے ہیں جو دوسروں کے با رے میں نیک جذبا ت و احساسات رکھتے ہیں۔ رہے وہ لو گ جن کے دل نفرتوں سے بھرے ہو ئے ہیں ان کی عبا دت محض ایک دکھلا وا ہو تا ہے ۔حضرت ابو مو سیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول ِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرما یا اللہ تعالیٰ شعبا ن کی پندرہویں شب میں اپنی تما م مخلوق کی جا نب نظرِ رحمت فرما کر ان کی مغفرت فرما دیتے ہیں سوائے دولوگوں کے جو اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں اورجو اپنے دل میں دوسروں کے خلا ف کینہ و بغض رکھتے ہیں۔(ابنِ ما جہ :حدیث نمبر1390) اس رات کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ یہ دنیا فا نی ہے اور اس کی لذتیں ختم ہو نے والی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ شعبا ن کی پندرہویں رات جنت البقیع کے قبرستان تشریف لے گئے ۔اپنی امت کے افراد کے لیے دعا فرما ئی اور ایک خاموش پیغام دیا کہ دنیا کی رنگینیوں میں مبتلا ہو کر اپنی قبر کو مت بھولو جو دن رات تمہیں پکار پکار کر اپنی تنہائی اور بے گا نگی کی یا د ہا نی کروا رہی ہے ۔ایک روایت کے مطا بق یوں بھی کہا جاتا ہے کہ اس رات ہر شخص کے با رے میں سال بھر کے امور کی پلا ننگ کو عملی جا مہ پہنانے کے لیے فرشتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔یہ گویا کہ فرشتوں کا
سال بھر کا ایکشن پلا ن ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کسے پیدا ہو نا ہے اور کسے مرنا ہے ،کو ن سعادت مندی کی جانب رواں دواں رہے گا اور کس کا مقدر بدبختی ہو گی ۔کس کی روزی میں کشائش اور کس کے رزق میں تنگی کی جا ئے گی۔ اس ساری تفصیل کا سب سے زیا دہ قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ انسان دنیا پر اپنی زندگی کے منصوبہ جا ت کی پلاننگ کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کا نا م مُردوں میں لکھا جا چکا ہو تا ہے ۔اس لیے اس رات کا یہ پیغام بڑا واضح ہے کہ ہر لمحہ موت کی تیاری کرتے رہو، موت کے چو کھٹے ہیں انہیں مت بھولو جانے کو ن سی تصویر سجا دی جا ئے، اس را ت کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کو ہر وقت معافی دینے کے لیے تیار ہے ۔اس کی رحمت اس کے غضب پر بھا ری رہتی ہے اور اس نے تو بہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھا ہے ۔اگر دن کا گنہگار رات کو اور رات کا گنہگار دن کو آکر اُس کی رحمت کا دروازہ کھٹکھٹائے تو اسے یقیناً کھلا ہوا پا ئے گا ۔اس کی داددو دہش کا عالم یہ ہے کہ وہ گنا ہ سے تو بہ کرنے والے کو گنا ہ گا ر کہنے کے لیے بھی تیا ر نہیں ہے ۔ حضورِ اکرم ﷺ کاارشادِ گرا می ہے ’’گنا ہ سے تو بہ کرنے والا یوں شما ر ہوتا ہے جیسے اس نے کو ئی گنا ہ کیا ہی نہ ہو ‘‘(بخاری) حضرت عا ئشہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ شعبا ن کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ قریب کے آسما ن پر جلوہ افروز ہو تے ہیں اور ہر گنا ہ گا ر کے گنا ہوں کو معاف فرما تے ہیں اگرچہ اس کے گناہ بنو کلب کی بکریوں کے جسم کے با لوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔(ترمذی) یوں تو شعبان کے مہینے میں کثرت سے نفلی روزے رکھنا حضور ﷺ کی سنت ہے لیکن اگر زیا دہ نہ بھی ہو سکے تو کم از کم دو یا تین دن کے روزے رکھ لیے جا ئیں تو اس سے حضور ﷺ کے ساتھ نسبت اور محبت بھی گہری ہو جا ئے گی اور سنت کا ثواب بھی ملے گا ۔حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ حضور ﷺ ہر مہینے کی 14,13اور15 تاریخ کو روزہ رکھتے تھے جنہیں ایامِ بیض کہا جاتا ہے۔ اگر شعبا ن کے مہینے میں بھی ایسا کر لیا جا ئے تو اس سے دونوں مقاصد حاصل ہو جا ئیں گے۔ الغرض شب ِ برأت ہمیں بندگی رب کے لیے تیار کرتی اور ہمارے شعورِ دعا کو بیدار کرتی ہے تو آئیے اس مر حلے پر جہاں اپنے لیے دعا ما نگیں وہیں پرعالمِ انسانیت اور امتِ مسلمہ کے ہر فرد کی سلا متی و کا میا بی کے لیے دستِ دعا دراز کریں ۔اللہ تعالیٰ ہماری عبادتوں و ریا ضتوں کو قبول فرما ئے۔(آمین)