ماحولیاتی اورسرمایہ دارانہ نظام کی بقا

April 12, 2020

صنعتی انقلاب سے پہلے انسانی سماج بڑی حد تک ماحولیات اور نیچر سے ہم آہنگی رکھتا تھا۔ صنعتی انقلاب نے منافع کے لالچ اور ہر قیمت پر پیدوار کے اضافے کو سرمایہ داری کا شعار بنا دیااور یوں یہ کرہ ارض ماحولیاتی نظام سے مطابقت برقرار نہیں رکھ سکا۔سرمایہ دارانہ نظام نے جنگلات کو بھی قدرتی سرمائے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا یہ سوچے بغیر کہ جنگلات اور نیچرنے لاکھوں سالوں کی ہم آہنگی کے بعد ماحولیات سے جوڑ پیدا کیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر سال ایک لاکھ مربع کلومیٹر کے جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں یا جل جاتے ہیں۔ یاد رہے یہ رقبہ سوئٹزر لینڈ اور ہالینڈ کے مکمل رقبے کے برابر ہے۔صنعتی انقلاب سے پہلے جنگلات نے درختوں ، جانوروں اور دوسرے حیاتیات کی وجہ سے وبائی جراثیموں کو قدرتی طور پر اپنے اندر ہی مقیدکر رکھا تھالیکن جنگلات کے کٹنے کے بعد وبائی جراثیم آبادیوں تک پھیلنا شروع ہوگئے ہیںحالانکہ صنعتی انقلاب سے پہلے جب وبائیں آیا کرتی تھیںتو مختلف علاقوں تک ہی محدود رہتی تھیںلیکن آج سے سو سال پہلے ہمارے آبا و اجداد کے پاس دنیا میں سفر کرنے کی اتنی آسائشیں موجود نہیں تھیں مگر اب مواصلاتی نظام میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے بے پناہ ترقی ہوئی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انسان بلکہ جنگلات کو کاٹنے کی وجہ سے وبائی جراثیم بھی پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں جیسا کہ کرونا وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

تاریخ شاید ہے کہ جتنی اموات وبائوں سے ہوئی ہیں اتنی جنگوں میں نہیں ہوئیں اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں ان وبائوں سے سیکھنا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی جتنی بھی ترقی کر جائے لیکن رہتی دنیا تک اب انسانیت کو ان وبائوں سے مسلسل لڑنا ہوگا۔ معروف امریکی دانشور پروفیسر نوم چومسکی نے کرونا وائرس کے پھیلائو کو سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی ناکامی سے تعبیر کیا ہے کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی فراوانی کے بعد جہاں نئی نئی ایجادات ہوئیں وہیں پر بڑی بڑی کارپوریشنوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنی مطیع بنا لیا۔ بڑے بڑے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ادارے اور اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں بنائیں یوں سرمائے کے بل بوتے پر ریاستی ڈھانچے ہی کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ سرمایہ دارانہ نظام ہر قیمت پر منافع کمانے کی جستجو میں اتنا آگے چلا گیا کہ ایک طرف تو ماحولیات کو تباہ و برباد کر دیا تو دوسری طرف تمام سماجی رشتوں کو بڑی بڑی کارپوریشنوں کے توسط سے دیکھنا شروع کر دیا۔ حال ہی میں نیویارک کے گورنر نے بڑی مایوسی سے یہ کہا ہے کہ وہ ماسک جو کرونا وائرس سے پہلے صرف 75 سینٹ کا تھا اب 7 ڈالر کا مل رہا ہے جس کے خریدنے کی سکت ان کی ریاست کے پاس نہیں ہے۔ یاد رہے کہ امریکی ریاست ہر شخص کی صحت پر گیارہ ہزار ڈالر سے زیادہ خرچ کرتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی نیویارک کی ریاست وینٹی لیٹرز،ماسک ،ٹیسٹنگ کٹس اور دوسری بنیادی چیزیں مہیا نہیں کر سکتی کیونکہ ان گیارہ ہزار ڈالر کے اصل مالک امریکی عوام کی بجائے دوائی سازکمپنیاں ، انشورنس کمپنیاں ، ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور دوسری بڑی بڑی کارپوریشنیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سینٹر برنی سینڈر تمام امریکی عوام کو ریاست کی طرف سے میڈی کیئر کی سہولت دینے کا اعلان کرتا ہے تویہ تمام کارپوریشنیں اس کے خلاف باہم شیروشکر ہوجاتی ہیں ۔ کوروناوائرس نے اکیسویں صدی میں ایک پیغام کھل کر دے دیا ہے کہ یہ بے لگام سرمایہ دارانہ نظام بہت دیر تک نہیں چل سکتا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری دنیا کے ممالک جلد از جلد نیچر سے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جوڑ لیں اور صرف وہی پیدواری ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے اسی حد تک استعمال کریں جس سے ماحولیاتی نظام درہم برہم نہ ہو۔ اس وائرس نے پیغام دیا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اب ایک گلوبل ویلیج بن گئے ہیں اور وہ اچھے اور برے حالات میں برابر کے حصے دار ہوں گے اور کوئی بھی قوم خواہ وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو ماحولیات اور نیچر سے علیحدہ ہوکر اپنی خوشحالی کا اہتمام نہیں کرسکتی۔

ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ یہ کرہ ارض جلد ازجلد نیچر کے ساتھ اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ بحال کر لے ورنہ وہ وبا جو 1918کے لمبے عرصے کے بعد اب آئی ہے ایسا نہ ہو کہ کچھ ہی عرصے کے بعد دوبارہ رونما ہو جائے جس سے نہ صرف اس کرہ ارض پر انسان کی بقا کو خطرہ لاحق ہو جائے گا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کو بھی بہت بڑا دھچکا لگے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کے تمام ممالک ماحولیاتی نظام کی بقا کے لیے ایک واضح، مکمل اور قابل عمل بین الاقوامی نگہداشت کاطریقہ کار اپنائیں۔ اس سے پہلے اقوام متحدہ کے تحت تخصیص اسلحہ، نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی نگہداشت، اسلحہ سازی کی نگہداشت اور متنازعہ علاقوں میں اقوام متحدہ کی افواج بھیجنے کے معاملات پر بین الاقوامی نگہداشت کا طریقہ کار موجود ہے۔ کرونا وائرس کے پس منظر میں بین الاقوامی ماحولیات کے سارے مسائل اقوام متحدہ کے سپرد کر دیئے جائیں تاکہ اس پورے نوعِ انسانی کے فیض یاب ہونے کی راہ میںکسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ اس سے ایک طرف تو ہم وبائوں سے موثر طریقے سے لڑ سکیں گے اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کی بے لگام مارکیٹ کو قابو میں رکھ سکیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام اقوام مل کر اقوام متحدہ کو وہ طاقت مہیا کریں کہ جس کی وجہ سے دنیا کی تمام سرمایہ دارانہ کارپوریشنز اور ممالک اس کے فیصلے کے پابند ہوں یہی بین الاقوامی نگہداشت کا طریقہ کار ارتقا پذیر ہوکر ایک بہتر دنیا کی نوید سناسکتا ہے جہاں امن اور خوشحالی کا بول بالا ہو۔