سیاسی ارادے کی ضرورت ہے

April 13, 2020

آج کل کے حالات نے ایک بات تو ثابت کر دی ہے کہ اگر حکومت چاہے تو ہر کام کر سکتی ہے- یعنی کم از کم اپنی رٹ تو ضرور قائم کر سکتی ہے یہ تو اندازہ نہیں کہ یہ آفت کب ختم ہوگی اور کیسے ختم ہوگی؟ لیکن امید ہے کہ جلد ایسا ہو- لیکن اس وقت تک مالی نقصان ہوچکا ہوگا اور جیسے معیشت دان کہہ رہے ہیں کہ 1930 سے بھی زیادہ شدید نوعیت کا ریسیشن آئے گا - لہذا معشیت کو آگے بڑھانے کے لئے ابھی سے تیاری کی ضرورت ہے - تاکہ اس اقتصادی جمود سے جلد از جلد نکلا جا سکے- لاک ڈاؤن کے اگر کچھ منفی پہلو ہیں تو وہیں کچھ مثبت پہلو بھی ہیں- نمبرایک وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنی کارکردگیوں کو بہتر بنانے کی فکر میں بہت اچھے فیصلے اور اقدامات کئے ہیں - نمبر2 لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازاروں اور آفسز کے بند ہونے کی وجہ سے بجلی کی بچت ہوئی ہے - 20 فیصد طلب میں کمی بتائی جارہی ہے لیکن یقینا اس سے کہیں زیادہ کمی ہے- کیونکہ ان بازاروں اور آفیسز میں بجلی کے آلات کا استعمال گھریلو سطح سے کئی زیادہ ہوتا ہے- ویسے بھی ہماری طلب رسد سے بہت زیادہ ہے اور گھنٹوں گھنٹوں لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے- اس لحاظ سے لاک ڈاؤن کی بدولت بجلی کی بچت ایک اچھی خبر ہے- تیسرے نمبر پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورے پاکستان میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص (جو کچرے کے ڈھیر کے لیے مشہور ہے) کچرے کے ڈھیر میں بہت کمی آئی ہے اور اس بات کا اندازہ بھی ہوا ہے کہ مکین تو گھروں میں رہتے ہیں اور اتنا ہی کچرہ کرتے ہیں جتنا پہلے کرتے تھے- لیکن بازار بند ہیں اس کا مطلب ہے سڑکوں پر کچرے کا ڈھیر بنانے میں ان بازاروں اور دکانداروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے- اب ان تینوں نکات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے- جس تندہی سے حکومت کام کر رہی ہے خاص طور پر سندھ حکومت وہ واقعی قابل ستائش ہے- اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ حکومت اور وفاقی حکومتیں اسی طرح اپنے رٹ قائم کریں اور مفاد عامہ کے لیے اسی طرح احسن فیصلے اور اقدامات کریں- جس میں سب سے پہلے اس بات پر زور دیا جائے کہ بجلی کے استعمال میں لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد غیر معمولی اضافہ نا ہوجائے- اس کے لیے حکومت پابندی کرے کہ سارے بازار اور شاپنگ مالز صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک کھلے رہیں گے- پہلے بھی یہ ایک دو بجے سے رات 10 بجے تک کھلے رہتے تھے یعنی آٹھ سے نو گھنٹے کے لیے - لیکن صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک کھلے رہنے سے ان کا دورانیہ 10گھنٹے کا بن جائے گا - اب وقت آچکا ہے کہ وسائل کے ضیاع کو روکا جائے اور قدرتی وسائل پر زیادہ سے زیادہ بھروسہ کیا جائے اور ان کا بھرپور استعمال کیا جائے- جس میں سورج کی روشنی سب سے زیادہ اہم ہے- یورپ جیسے ممالک میں اس کی مثال موجود ہے ہم ہر وقت ان کی مثال دیتے ہیں تو ان کی اچھی چیزوں کی تقلید کیوں نہیں کرتے۔ صرف فیشن میک اپ اور ڈریسنگ میں ہی نقالی کیوں؟ وہاں بھی شام 5 6 بجے تک تمام بازار بند ہوجاتے ہیں تو ہمارے ہی یہاں کیوں ممکن نہیں؟ یقینا حکومت چاہے تو ممکن ہے بھلے سے ہفتے کے ساتوں دن بازار کھلے رہیں( جو آج کل بھی کھلے رہتے ہیں) تاکہ نوکری پیشہ افراد کو مسئلہ نہ ہو - اسی طرح تمام اسکولز اور کالجز کے اوقات کار صبح سے دو بجے تک ہوتے ہیں لہذا تمام کوچنگ سینٹر والوں کو پابند کیا جائے کہ وہ تین بجے سے سات بجے تک اپنے سینٹر چلائیں تاکہ بجلی کی کم سے کم مانگ ہو- اور سب بڑھ کر سڑکوں پر ٹریفک کی روانی بھی متاثر نہ ہو اور ٹریفک کا ہجوم ہو سکے- بالکل اسی طرح حکومت شادی ہالز کو بھی وقت کا پابند کرے- ابھی مغرب سے پہلے ہال کی بتیاں جلا دی جاتی ہیں جو رات دو بجے تک جلتی رہتی ہیں اصل فنکشن شروع گیارہ بجے ہوتا ہے لیکن میزبان کی ہال میں موجودگی کی وجہ سے سے بجلی کا استعمال سات بجے سے ہورہا ہوتا ہے- لہذا سندھ حکومت اس سلسلے میں سخت ایکشن لے کر اس کو دس بجے بند کرنے کا پابند کر سکتی ہے اور عوام کو بھی اس سلسلے میں تعاون کرنا چاہیے- ماحولیات کی بہتر ہوتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بازاروں اور دکانداروں کو صفائی کا خاص خیال رکھنے کا پابند کیا جائے خاص طور پر ڈسپوزیبل آئٹمز کے استعمال کو ختم کیا جائے کیونکہ سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پلاسٹک کا استعمال کھانے پینے کی چیزوں کے لیے مضر صحت ہے- اسی طرح تھرماپول سے بنی بھی چیزوں میں کھانوں کی سپلائی کو مکمل بند کیا جائے کیونکہ یہ ایک طرف صحت کے لئے خطرہ ہیں تو دوسری طرف گندگی کے ڈھیر میں اضافے کا سبب بھی- اور یوں براہ راست ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی وجہ بھی۔ معاشی ترقی سماجی ترقی سے ہی ممکن ہے اور سماجی بہبود اور ترقی کے لئے حکومت کو ہی ابہم اقدامات لینے ہونگے اور موجودہ حالات نے ثابت کردیا کہ حکومت اگر چاہے تو ہر فیصلہ پر عملدرآمد کرواسکتی ہے - شرط ہے صرف سیاسی ارادے(political will ) کی۔

minhajur.rabjanggroup.com.pk