بکھرے میرے خواب سہانے

April 19, 2020

کورونا کی وبا نے دنیا بھر میں بہت کچھ تبدیل کردیا ہے ۔ کساد بازاری کے دور میں جنوب مشرقی ایشیا میں سیاسی بے یقینی میں اضافے کے امکانات بڑھ گئے ہیں،بالکل اسی طرح جس طرح 1997کے ایشیائی اقتصادی بحران کے دنوں میں ہوا تھا اور اس کی وجہ سے انڈونیشیا میں صدر سوہارتو اقتدار سے محروم ہوگئے تھےاور تھائی لینڈ میں تھاکسن کو عروج ملا تھا۔

چین کے غیرمعمولی اقدامات

یہ طے ہےکہ ہر وبا کے اقتصادی اور سیاسی اثرات ہوتے ہیں ۔یہ وبا بہ ظاہر چین سے پھیلنا شروع ہوئی تھی۔بیجنگ نے ابتدا میں اس پر خاص توجہ نہیں دی،لہذا یہ وائرس وہاں خوب پھیلا اور پھر چین کی سرحدوں سے باہر بھی چلا گیا۔لیکن پھر چین کی قیادت کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہوگیا،چناں چہ اس نے بہت سخت اقدامات اٹھائے اور اس پر قابو پالیا۔لیکن ایسے سخت اقدامات اٹھانا صرف چین جیسے ملک کے لیے ہی ممکن تھا،کیوں کہ وہاں سیاست اور حکومت کا ایک خاص انداز ہے۔

مغرب کےطبی نظام کی قلعی کھل گئی

ایشیا کے بعد اس وبا کا مرکز یورپ بنا ۔مغربی ممالک نے بھی ابتدا میں اس مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا،لیکن پھر خراب ہوتےحالات نےانہیں ششدرکردیااوروہ حرکت میں آگئے۔ ۔زیادہ تر یورپی ممالک (سوائے برطانیہ کے) اب اس وبا کے اثرات کم کرنے میں کام یاب ہوچکے ہیں۔لیکن امریکا اب اس کا مرکز بنا ہوا ہے۔

ممکنہ اقتصادی اثرات

یہ وبا پھلنے سے قبل ہی چین کی اقتصادی شرحِ نمو میں کمی نے دنیا بھر پر اثرات مرتب کیے تھے۔خود چین میں سپلائی چین اس وبا سے بری طرح متاثر ہوئی ،لیکن اب وہاں بڑے تجارتی اور صنعتی اداروں کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ تاہم چھوٹےاور درمیانے درجے کے اداروں اور کاروبارکی بحالی کی رفتار سست ہے۔یاد رہے کہ ایس ایم ایز کا چین کے جی ڈی پی میں ساٹھ فی صد اور ذرایع روزگار میں اسّی فی صد حصہ ہے۔

دوسری جانب 2008کے عالمی اقتصادی بحرا ن کے بعد دنیا کی اہم معیشتوں کےمرکزی بینکس کی معیشتوں کو تحریک دینے کی طاقت کم ہوچکی ہے،ان کی شرحِ سود پہلے ہی بہت کم ہے اور زیادہ تر بڑی معیشتوں کو اپنے سالانہ میزانیے میں بہت بڑے خسارے کا سامنا ہے۔

ان حالات میں چین کا متبادل تلاش کرنے کی کوششیں کم ہی کی جاسکیں گی۔تاہم کچھ حد تک ایسا ہوگا۔ایسے میں جنوب مشرقی ایشیا پروڈکشن کے لیے متبادل پلیٹ فارم مہیا کرسکتا ہے۔ ۔لیکن جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں اس ضمن میں دو مسائل بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ پہلا مسئلہ اس کام کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے کا اور دوسرا تربیت یافتہ افرادی قوت کا ہے جن پر ان ممالک کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پھر یہ کہ ان ممالک کو محاصل،محنت کشوں سے متعلق قوانین اور نظامِ انصاف سے متعلق انتظامی حدود و قیودکوکاروباردوست بناناہوگا۔اس کےعلاوہ امریکا کے سیکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کرنا ہوگا۔

سیاسی اثرات

اقتصادی بد حالی سیاسی بے یقینی بڑھاتی ہے۔ایشیا میں 1997میں آنے والا اقتصادی بحران انڈونیشیا میں اس وقت کے صدر،سوہارتو کےزوال کا سبب بنا تھا۔ملائیشیا میں اس وقت کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اپنے نائب وزیر اعظم ،انور ابراہیم کو برطرف کرکے جیل بھیج دیا تھا۔تھائی لینڈ میں اس بحران کے ملک کی معیشت اور سماجی نظام پر پڑنے والے اثرات اس نوعیت کے تھے کہ وہاں تھاکسن شناوترا کی صورت میں ایک غیر روایتی راہ نما اقتدار میں آگیا تھا،جس کی وجہ سے وہاں کی روایتی سیاسی اشرافیہ میں بے چینی اور غصہ پیدا ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں وہاں دو مرتبہ تحتہ الٹا گیا۔دو عشرے گزرجانے کے باوجود ان تبدیلیوں کی قیمت یہ ممالک خود ہی ادا کررہے ہیں۔تاہم موجودہ حالات میں انڈونیشیا،ملائیشیا ،تھائی لینڈ،ویت نام اور فلپائن (جو آسیان کے رکن ممالک ہیں)چین کے متبادل کی تلاش کی کوششوں کے نتیجے میں ممکنہ طورپر فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

انڈونیشیا،ملائیشیا اورتھائی لینڈمیں سیاسی منظر نامہ پہلے ہی کشیدہ نظر آتا ہے۔میان مار اور فلپائن میں بالترتیب اس برس اور 2022میں انتخابات ہونے ہیں،لیکن وہاں سیاسی صورت حال غیر یقینی ہے۔ صرف برونائی، سنگاپور،لاوس،اور ویت نام آسیان کے ایسے رکن ممالک ہیں جن کے بارے میں کسی حد تک اعتماد سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہاں بنیادی سیاسی استحکام رہے گا۔لیکن اس خِطّے کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ ممکنہ مواقعے سے بہت زیادہ فائدہ اٹھاسکیں گے۔

جیو پالیٹکس

جب یہ وبا دنیا سے ختم ہوگی تو امریکا،اس کے اتحادیوں اور چین کے درمیان طاقت کے توازن کی نسبت میں کوئی بنیادی تبدیلی ہوتی نظرنہیں آرہی۔ان کے درمیان جاری تزویراتی مقابلہ،اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی پے چیدگیاں اور ان کی وجہ سے جنوب مشرقی ایشیا کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی شاید پہلے ہی کی طرح رہیں گی۔امریکا اور چین پہلے ہی کی طرح با اثر علاقائی کردار رہیں گے جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔تاہم دونوں میں اعتماد میں کمی آچکی ہے ۔

آسیان ممالک کا کورونا کے خلاف اتحاد

جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے چودہ اپریل کو ہونے والے خصوصی ورچوئل اجلاس میں آسیان کے دس رکن ممالک کے رہنماؤں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ نوول کرونا وائرس کی عالمی وبا پر قابو پانا اور اسے مزید پھیلنے سے روکنا اس بلاک کی اہم ترجیح ہے۔ آسیان کے رہنمائوں نے وبا کے دور کے بعد معیشت کی بحالی کے منصوبوں کی تشکیل پر بھی روشنی ڈالی۔

سارک ممالک کی کیفیت

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اس وقت بہت سے لوگوں کو حیران کردیا جب تیرہ مارچ کو انہوں نے ٹوئٹر پر یہ تجویز دی کہ کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے مستحکم حکمت عملی ترتیب دینے کی غرض سے جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم ( سارک) کے سربراہان بہ ذریعہ وڈیو کانفرنس مل بیٹھیں۔

بھارت نے 2016میں اڑی میں ہونے والے حملے کا الزام پاکستان پر لگاکر اسلام آباد میں ہونے والی انیسویں سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کیاتھا اور بعد میں متعددرکن ممالک کی جانب سے شرکت سے انکار کے سبب وہ منسوخ ہوگئی تھی۔ مودی کے تیرہ مارچ کے ٹوئٹ کے بعد اکثریت نے جنوبی ایشیا میں کورونا کیخلاف حکمت عملی بنانے کے لیے وڈیو کانفرنس منصوبے کا خیرمقدم کیاتھا۔ نیز بعض اسے سارک کی دوبارہ فعالیت کی جانب ایک ممکنہ قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم سارک کی تاریخ بتاتی ہے کہ تنظیم کے دوبارہ بحالی کی جانب عازم سفر ہونے کے زیادہ امکانات نہیں۔

کورونا اور بنگلادیش،نیپال اور بھوٹان

بنگلا دیش،سری لنکا ، نیپال،بھوٹان اور مالدیپ میں کچھ عرصے میں رونماہونے والی تبدیلیوں نے ملاجلا ماحول پیداکردیا ہے۔ بنگلا دیش میں بھارت نوازحکومت ہے۔لیکن نیپال کے بارے میں ایسانہیں کہاجاسکتا۔پاکستان نے سری لنکامیں دہشت گردی ختم کرنے میں اس کی مددکی ۔اس کے بعدسے سری لنکاکامعاملہ بھی بھارت کے حق میں نہیں ۔ مالدیپ میں صدرعبداللہ یامین نے اپوزیشن سے تعلقات کشیدہ ہو جانے پرہنگامی حالت نافذکردی تھی۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بھوٹان میں اب ایک انتہائی تواناآوازاٹھ رہی ہے کہ بھارت پر انحصا ر کم کیاجائے۔

بھارت کے بیش ترپڑوسی اپنے فیصلے اب خود کرنے کی پوزیشن میں آرہے ہیں۔ اب یہ بات عیاں ہے کہ علاقائی معاملات میں چین اپنا کردارکھل کر اداکر رہاہے۔ بنگلا دیش، سری لنکااورمالدیپ کی چین نے بھرپورمالی معاونت کی ہے۔تجارت بھی بڑھائی ہے۔سرمایہ کاری کادائرہ بھی وسعت اختیارکررہاہے۔ان ممالک کو چین اسلحہ اور متعلقہ ٹیکنالوجی بھی دے رہا ہے۔ یہ صورت حال کورونا کے بعد بھی تبدیل ہوتی نظر نہیں آرہی۔

جنوبی ایشیا میں غربت بڑھنے کا خطرہ

عالمی بینک کے مطابق جنوبی ایشیا کے لیے کورونا وائرس کی وبا ایک’’بھرپور طوفان‘‘ کے مترادف ہے۔ غربت کے خلاف عشروں سے کی جانے والی کوششوں کے ضایع ہونے کا خطرہ ہے۔ عالمی بینک کے مطابق جنوب ایشیائی ممالک کو چار دہائیوں کے دوران اپنی بدترین اقتصادی کارکردگی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ جنوب ایشیا میں اقتصادی ترقی کی شرح زیادہ سے زیادہ ایک اعشاریہ آٹھ سے دو اعشاریہ آٹھ فی صد کے درمیان رہے گی۔

سب سے زیادہ نقصان مالدیپ کو پہنچے گا، جس کی معیشت میں سیاحت کے شعبے کی کارکردگی کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ اسی طرح افغانستان کی مجموعی قومی پیداوار میں تقریبا چھ اور پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں 2.2 فی صد تک کمی کا امکان ہے۔اس کے علاوہ بھارت، جو اقتصادی حوالےسے جنوبی ایشیا کی ایک ’’ہیوی ویٹ‘‘ معیشت سمجھا جاتا ہے، وہاں بھی اقتصادی شرح نمو پچھلے اندازوں کے مقابلے میں بہت کم رہے گی۔