کورونا پر سیاست نہیں، لوگوں کی دلجوئی کی جائے

April 23, 2020

بظاہر صوبے میں سیاسی سرگرمیاں ماند ہیں اجتماعات ، جلسے، جلوس، ریلیاں منعقد نہیں کی جارہیں تاہم کورونا وائرس پرسیاست عروج پرہے لاک ڈائون لگانے یا ہٹانے پر بھی بعض حلقوں کے مطابق سیاست اور بارگیننگ ہورہی ہے تو راشن تقسیم کو بھی کارخیر کے بجائے سیاست کی نذر کیا جاچکا ہے طویل لاک ڈائون پر بھی اب بحث کورونا ے والے غیر معمولی حالات نے معاشی مسائل بھی پیدا کر دئے ہیں سندھ میں لاک ڈاون مزید سخت کر دیا گیا ہے تاہم حیرت انگیز طور پر یہ سختی شام پانپ بجے کے بعد نظر ٓتے ہے سندھ حکومت نے خواتین بچوں سمیت بزرگ شہریوں پولیس ،صحافیوں کا استثنی بھی ختم کر دیا ہے جس پر صحافی برادری نے احتجاج کیا ہے۔

جبکہ وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر کاروباری و تجارتی مراکز کھولنے سے متعلق جائزہ لینے کے لئے صوبائی وزراء پر مشتمل کمیٹی نے اپنی سفارشات وزیراعلیٰ سندھ کو دے دی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ یہ سفارشات وزیراعظم کو پیش کریں گے صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ کوشش ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی ایس او پیز کے تحت کاروباری و تجارتی مراکز کھولے جانے اگر وفاق نے کہاکہ صوبے خود فیصلہ لیں تو ہم پھر فیصلہ کریں گے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سندھ حکومت نے چھوٹے تاجروں کو کاروبار کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے اس ضمن میں تاجروں کے وفد نے ایج بار پھر وزیر اعلی سندھ سے وزیر اعلی ہاوس میں ملاقات کی ہے ادھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اور مستحقین کو راشن کی فراہمی اور احساس کفالت پروگرام کے تحت رقوم دینے کے دعوے کئے گئے ہیں تاہم بعض حلقوں کاکہنا ہے کہ حکومتوں کے اعدادو شمار حقیقت پر مبنی نہیں ٹھٹہ میں راشن نا ملنے پر عوام نے ٹھٹہ ، حیدرٓباد شاہراہ ٹائر جلا کر بند کر دی تحریک انصاف ٹائیگرفورس کے ذریعے امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں پی ٹی آئی کے رہنما خرم منیر زمان کے دعویٰ کے مطابق ٹائیگر فورس میں تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں تاہم یہ بھی کہاجارہا ہے کہ احساس کفالت پروگرام کا تمام کنٹرول پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ہے ’’سندھ کے شہری علاقوں میں پی ٹی آئی نے امدادی سرگرمیوں میں سندھ کے شہری علاقوں کی تیسری بڑی جماعت ایم کیو ایم کو بالکل نظرانداز کر رکھا ہے۔

ایم کیو ایم چندہ جمع نہیں کر پارہی دفاتر نہ ہونے کے سبب ان کے کارکنوں اورعوام سے مربوط رابطہ نہیں یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم اس مشکل گھڑی میں اپنا وہ کردارادا نہیں کر سکی جس کی توقع کی جارہی تھی ایم کیو ایم گرچہ پی ٹی آئی کی تحادی ہے تاہم گزشتہ ایک سال سے ان کے کسی مطالبے کو پور ا نہیں کیاگیا ایم کیوا یم کابڑا مطالبہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح انہیں بھی دفاتر کھولنے کی اجازت دینے کا ہے جو پورا نہیں کیاگیا ناہی انہیں طے شدہ فارمولے کےتحت وفاقی کابینہ میں نمائندگی دے گی اور نہ ہی ان کے کارکنوں پر قائم مقدمات ختم کئے گئے۔

اس دوران محکمہ بلدیات سندھ نے صوبے میں مقامی حکومتوں کی مدت پوری ہونے کے بارے میں سمری وزیراعلیٰ سندھ کو بھیج دی ہے اگر یہ سمری منظور کرلی جاتی ہے تو کسی بھی وقت تمام بلدیاتی کونسلیں ختم اور کارپوریشنز کے میئر ڈی ایم سیز، ٹائون اور یونین کونسلوں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین بھی فارغ ہوں گے یہ کہا جاتا رہاہے کہ بلدیاتی اداروں کی مدت 30؍اگست کو ختم ہو گی تاہم لوکل گورنمنٹ کا کہنا ہے کہ یوسیز چیئرمینوں اوروائس چیئرمینوں نے جنوری 2016ء میں حلف اٹھا لیاتھا لہٰذا بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہوچکی ہے سمری کی منظوری کے بعد یہ ممکن ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں بلدیاتی انتخابات سے قبل ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر کر دیا جائے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے امدادی سرگرمیاں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کا سلسلہ ہے سندھ کے شہری علاقوں کراچی، حیدر آباد ، سکھر کے بلدیاتی اداروں کاکنٹرول سنبھالنے کے لئے پی پی پی ، ایم کیو ایم ، پی ٹی آئی اورجماعت اسلامی غیر محسوس طورپر مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ادھر ایم کیو ایم کے اعلیٰ سطح کے دفد نے گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کی ۔ملاقات میں ایم کیو ا یم کے وفد میں ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ، میئر کراچی وسیم اختر ایم کیوایم کے مرکزی رہنما عامرخان، کنور نوید جمیل اور فیصل سبزواری شامل تھے ۔

بظاہر یہ ملاقات کوروناوائرس اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں تھی۔ تاہم ایم کیو ایم کے اتنے بھاری بھرکم وفد کی وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کو سیاسی حلقے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے سندھ کا دورہ ملتوی کردیا۔ وزیراعظم کو حکومت سندھ کے دیگر شہروں کا دورہ کرنا تھا اس دورے میں کراچی کو شامل نہیں کیاگیا تھا۔ جس پر خاصی تنقید کی گئی بعدازاں دورہ ملتوی کرکے کہاگیاکہ وزیراعظم کا دورہ مؤخر کیا گیاہے جلد ہی وزیراعظم سندھ کا دورہ کریں گے۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کے دورے میں کراچی کو اس لئے بھی شامل نہیں رکھا گیا تھا کہ کراچی آنے پر انہیں ایم کیو ا یم کے مطالبات کاسامنا کرنا پڑتا سیاسی حلقوں کے مطابق کراچی نے پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ سیٹیں دی ہے کراچی کو نظر انداز کرنا بہت سے سوالات کو جنم دیتاہے ادھر پی ٹی آئی کو گزشتہ ہفتے شدید جھٹکا لگا کراچی سے منتخب رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے بانی رکن نجیب ہارون نے وفاقی حکومت کی جانب سے ان کے حلقے او رکراچی کو مسلسل نظرانداز کئے جانے کے سبب اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ نجیب ہارون کے استعفیٰ سے بعض حلقوں کے مطابق یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ وفاق کراچی کو نظرانداز کررہا ہے۔