مشکل ترین حالات: حکومت معیشت بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کرنے لگی

April 23, 2020

پاکستان سمیت پوری دنیا اچانک پھیلنے والے کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے اور اس ناگہانی آفت نے دنیا بھر میں تباہی مچا دی ہے۔ اب تک ڈیڑھ لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ عالمی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے اور اس وبا کے خاتمے کے بعد بھی طویل عرصہ تک اس کے اثرات رہینگے۔ بالخصوص پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی بدحالی کا شکار ہے اس پر بدترین اثرات مرتب ہونگے کیونکہ متحدہ عرب امارات سعودی عرب برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے ہزاروں پاکستانی بیروزگار ہو کر وطن واپسی کیلئے تیار بیٹھے ہیں صرف متحدہ عرب امارات سے 40 ہزار پاکستانی بیروزگار ہوکر وطن آرہے ہیں پاکستان کو تارکین وطن سالانہ 24 ارب ڈالر زرمبادلہ بھجواتے ہیں جو پاکستان کے سالانہ بجٹ بنانے اور معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں کمی ہوگی۔ اس کے علاوہ بیروزگاری میں زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ عمران خان حکومت کے 600 سو سے زائد دن مکمل ہو گئے ہیں اس دوران مہنگائی 5.8 فیصد سے بڑھ کر 10.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

اگرچہ حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز کو پیکج دیا ہے اور وہاں بہت سی اشیائے خرد کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے مگر دور دراز علاقوں میں یوٹیلٹی سٹورز نہیں ہیں جبکہ حکومت نے پہلے جو فرنچائیز یوٹیلٹی سٹورز قائم کئے ہیں وہاں وہ لوگ سستی اشیا خرید کر اپنی اپنی دکانوں پر مہنگی اشیا بیچ رہے ہیں وفاقی وزیر شہری ہوا بازی غلام سرور نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ایسے لوگوں اور فرنچائیز یوٹیلٹی سٹوروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں اس وقت وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے وزراء میں ٹھنی ہوئی ہے اور کرونا وائرس پر سیاست ہورہی ہے پوائنٹ سکورنگ کی جارہی ہے جو موجودہ حالات کے تقاضوں کے منافی ہیں۔

درحقیقت کوئی حکومت نہیں چاہتی کہ اس کے عوام مرتے رہیں اور وہ خاموش تماشائی بنی رہے۔ جب سے یہ وائرس پھیلا ہے تب سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں لوگوں کو تحفظ دینے کی سرتوڑ کوششیں کررہی ہیں وزیراعظم عمران خان صاحب نے بھی کورونا سے بچائو کیلئے اچھے اقدامات کئے ہیں سندھ حکومت نے بھی بعض اچھے اقدامات کئے ہیں اس طرح پنجاب حکومت، کے پی کے اور بلوچستان حکومت نے کورونا وائرس پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔

چونکہ یہ وبا اچانک پھیلی اس لئے قبل از وقت کوئی موثر اقدامات نہیں ہو سکتے تھے ہمارے ہسپتالوں کی حالت سب پر عیاں ہے30 سال تک حکومت کرنے والوں نے پاکستان میں ہسپتالوں میں اضافے یا موجودہ ہسپتالوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی کیونکہ وہ خود تو اپنا علاج بیرون ممالک کرالیتے تھے عوام کا خیال نہیں رکھا گیا نہ ڈیم بنے نہ بجلی کے منصوبے نہ طبی سہولتیں نہ ہی تعلیم کو اہمیت دی گئی ۔ صرف چند سڑکیں یا موٹر وے ضرور بنائے اور لاہور میں کھربوں کی لاگت سے وہ ٹرین کا منصوبہ ضرور بنا جس کی ضرورت نہ تھی مگر لوگ یہ بات کہتے ہیں حق بجانب ہیں جن منصوبوں پر کمیشن زیادہ ملتا تھا وہ منصوبے ترجیح بنیادوں پر بنائے گئے۔

وزیراعظم عمران خان کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا خزانہ خالی تھا اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا اور معیشت کو پٹڑی پر چڑھا دیا۔ مگر موجودہ حکومت کی بدقسمتی کہ جونہی قدم جمانے لگتی ہے کوئی نہ کوئی آفت آجاتی ہے اور ملک اور عوام پھر پیچھے چلے جاتے ہیں اگر کورونا وائرس نہ آتا تو اس وقت عالمی عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا بہر حال ابھی وزیراعظم عمران خان کی طرف سے موثر آواز اٹھانے اور کوششوں پر عالمی اداروں آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے قرضوں کی واپسی میں چھوٹ دیدی اور پیرس کلب قرض دینے والے دوسرے اداروں اور بنکوں نے 12ارب ڈالر کی وصولی ایک سال کیلئے موخر کر دی جبکہ آئی ایم ایف نے 1.4ارب ڈالر کا نیا قرضہ بھی منظور کرلیا۔

یقیناً ان رعائتوں کے حصول کا سہرا وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے۔ مشکل ترین حالات میں حکومت نے معیشت کی بہتری کیلئے کچھ ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں جن میں تعمیراتی شعبے اور صنعت کیلئے زبردست مراعات دیدی گئی ہیں جن میں کاروبار میں لگائی گئی رقم کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔ مشینری صنعتوں کی طرح درآمد کر سکیں گے ایڈوانس ٹیکس5 فیصد ہو گا۔ تعمیراتی شعبے کو ایمنسٹی دینے سے جہاں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا وہاں مزدوروں کو روزگار ملے گا اور تعمیراتی صنعت سے وابستہ دیگر شعبوں کو بھی ترقی ملے گی۔

اس طرح دوسری صنعتوں کو بھی کام کرنے کی اجازت دے دینا چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں مخالفین کو ایک اچھا پیغام دیا ہے کہ سیاست نہ کریں اور انتہائی حساس معاملات کو سیاسی رنگ دینا کسی کے مفاد میں نہیں حالات کا تقاضہ کے وفاقی اور سندھ حکومت کو اس وبا پر قابو پانے کیلئے اختلافات سے بالاتر ہو کر کام کرنا چاہئے۔ وفاقی حکومت نے محنت کشوں دیہاڑی دار مزدوروں کیلئے 12 ہزار روپے اور راشن تقسیم کرنے کی مہم شروع کی ہے اس طرح پنجاب سندھ کے پی کے اور بلوچستان حکومت نے اس سمت اقدامات اٹھائے ہیں۔

پیسوں اور راشن کی تقسیم میں یقیناً خامیاں اورکمزوریاں رہ جائینگی اور کچھ لوگوں کو ملے گا اور کئی مستحق رہ جائیں ماضی میں جو خوفناک زلزلہ آیا تھا اس میں بھی لوگوں میں بے تحاشہ امداد تقسیم ہوئی مگر پھر بھی بڑی تعداد میں لوگ اب بھی شکوہ کرتے ہیں دراصل اس امدادی کام میں پیشہ ور گداگر خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور وائٹ کالر اور شریف لوگ رہ جاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے امدادی سامان کی تقسیم کیلئے جو فورس تشکیل دی ہے اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اور حقیقی مستحق لوگ فیضیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ پاکستان پر اب بھی اللہ تعالی کا خاص کرم ہے کیونکہ طبی ماہرین نے حکومت کو باور کرایا تھا کہ پاکستان میں50 ہزار سے زئاد مریض ہونگے اور سات سو سے زائد جاں بحق ہوجائیں گے۔

مگر اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ یہ تخمینہ درست ثابت نہیں ہورہا اور اندازہ ہے کہ 10سے 15ہزار افراد ہی متاثر ہونگے اور اموات بھی کم ہونگی اس وقت پونے آٹھ ہزار کورونا مریض ہیں 150اموات ہو چکی ہیں جبکہ 19سو کے لگ بھگ مریض صحت یاب ہو کرگھروں کو چلے گئے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ڈیڑھ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں کل 22لاکھ سے زائد مریض، مزید دو اڑھائی لاکھ افراد کے مرنے کی اطلاعات ہیں جدید ٹیکنالوجی اور سپر طاقت کا دعویٰ کرنے والے بے بس نظر آرہے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک جھٹکے میں ان کے سپر طاقت ہونے کے دعوے کو بے نقاب کردیا ہے اس وقت پاکستان میں لوگ لاک ڈاؤن کی پرواہ نہیں کر رہے ہیں اور خوف و ہراس بھی ختم ہو گیا ہے عوام اس مرض کی ہولناکی بے نیاز ہو کر بازاروں میں ا ٓجا رہے ہیں جو خطرناک ہے اگر یہی صورت حال رہی تو کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے لوگوں کا سرکاری تخمینہ غلط ہو سکتا ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس صورت حال پر کڑی نگاہ رکھنا چاہیے ورنہ صورت حال کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔