اپریل فول بن جاؤ

April 01, 2013

آج کا دن اپریل فول بنانے کا دن ہے اور پچھلے ایک ہفتے میں کراچی،لاہور اور اسلام آباد کا ایک سرسری چکر لگانے کے بعد لگ یوں رہا ہے کہ پوری قوم کو آج سے فول بنانے کا کام شروع ہو رہا ہے۔ آج الیکشن کمیشن امیدواروں کی جانچ پڑتال شروع کرے گا اور کل تک اندازہ ہو جائے گا کہ یہ انتخابات کدھر جا رہے ہیں۔ یوں تو اب تک جتنی کہانیاں باہر آئی ہیں ان سے اندازہ ہو ہی گیا ہے کہ سیاست کے ماہر کھلاڑیوں نے قوم کو اپریل فول بنانے کا کام مہینوں اور سالوں پہلے شروع کردیا تھا۔ جب الیکشن کمیشن کی تشکیل ہوئی، اپنے پسندیدہ مہرے بٹھا دیئے گئے کسی کے خیال میں بھی نہیں تھا کہ یہ کتنی بڑی چال چلی گئی ہے پھر آئین میں ترمیم کرکے چیف الیکشن کمشنر کی کرسی اور ان کے اختیارات پر ضرب کاری لگائی گئی جب یہ کام بھی ہوگیا تو پھر ایک نمائشی86 سال کے بہت ہی محترم سابق جج کو اس کرسی پر بٹھا دیا گیا مگر اس طرح کہ ہاتھ پیر باندھ کر اور ایک مائیک سامنے رکھ کر کہ وہ صاف شفاف الیکشن کا گیت روز الاپتے جائیں اور نیچے والے اپنا کام جاری رکھیں۔ بڑی بڑی سرخیاں لگوائی گئیں کہ چوروں اور ڈاکوؤں کو اس طرح پکڑا جائے گا اور جعلی ڈگری والوں کا یوں احتساب ہوگا اور ٹیکس نہ دینے والوں کو یوں کرکے چاروں خانے چت اس طرح کیا جائے گا مگر یہ سب آنکھوں میں دھول و خاک ڈالنے کے برابر تھا۔ پیچھے بیٹھے ڈان ہر چال سوچ سمجھ کر چل رہے تھے اور پھر آج کا دن آگیا۔ چاروں طرف نظر ڈالیں تو صاف دکھ رہا ہے کہ کوئی کام کا آدمی ابھی تک کسی کی زد میں نہیں آیا، کسی بڑی مچھلی پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ ایک معذوروں کا کلب ہے آج کا الیکشن کمیشن اور جو لوگ جس کام کیلئے رکھے گئے تھے وہ پوری تندہی کے ساتھ اپنے آقاؤں کی خدمت میں مگن ہیں۔ پلان بن چکا کہ کس کی سچی اور کھری جانچ پڑتال نہیں ہوگی اگر کوئی جمشید دستی مل گیا تو الٹا لٹک جائے گا ورنہ ایک ہڑبونگ میں سب مگر مچھ اور بھیڑیئے دوبارہ عوام کی خدمت کیلئے چوری کا کروڑوں اور اربوں کا لوٹا ہوا مال لگا کر واپس ایوانوں میں آجائیں گے۔ ذرا سوچئے کس طرح اپریل فول بنایا گیا ہے جان بوجھ کر اور لکھ کر وعدے کئے گئے کہ 30 دن دیئے جائیں گے تاکہ شق 62 اور 63 کے تحت پوری جانچ پڑتال ہوسکے اور عام لوگ اپنے امیدواروں کے کوائف دیکھ سکیں اور جھوٹ پکڑ سکیں مگر ہو کیا رہا ہے۔ 30 تو کیا 15 دن بھی نہیں دیئے گئے اور اب جو تازہ خبر آئی ہے اس کے مطابق ایک دو دن میں ان تمام بڑے بڑے چوروں اور لٹیروں کی جانچ پڑتال ایسے مکمل کرلی جائے گی جیسے ان کا انتخاب میں شامل ہونا پتھر کی لکیر ہے اور ان کے بغیر شفاف انتخاب ہو ہی نہیں سکتا۔ کہانی یوں بنا دی گئی ہے کہ جانچ پڑتال کے صرف 7 دن ہیں اور الیکشن کمیشن اس مدت میں اضافہ نہیں کرسکتا۔ ٹھیک ہے مگر وہی کمیشن صرف ایک آرڈر کے ذریعے کاغذات جمع کرانے کی تاریخ میں بیٹھے بیٹھے دو دن کی توسیع کردیتا ہے اور کوئی پوچھتا بھی نہیں کہ ایک تاریخ تو بڑھ نہیں سکتی مگر دوسری کیسے بڑھ گئی۔ یہ معذوروں کا کلب ہر کرتب دکھا سکتا ہے۔ پھر فخرو بھائی کے سایہ تلے یہ بھی فیصلہ ہوگیا کہ عدالت عالیہ کے حکم کے باوجود کسی شخص یا میڈیا کو کاغذات نامزدگی کی کاپی نہیں دی جائے گی جب تک کمیشن کاغذات منظور نہ کرے اور پھر اگر منظور ہوگئے تو کوئی اعتراض نہیں سنا جائے گا،کسی کو شکایت ہے اور کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ ٹریبونل یا عدالت میں لے جائے یعنی اس 85 کے کلب سے کوئی امید نہ رکھی جائے۔ فخرو بھائی تو کمال ہی کرتے ہیں۔ کراچی میں رہتے ہیں اور ایک تقریب میں کھڑے ہو کر ہمارے دوست نجم سیٹھی سے سوال پوچھ مارا کہ بتائیں انتخابات ہوں گے کہ نہیں۔ الیکشن کرانے کے بابائے قوم جب ایک TV کے تجزیہ کار سے500 لوگوں کے سامنے یہ سوال کریں تو آپ خود سوچ لیں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ سیٹھی صاحب تو حیران ہوئے ہی پوری تقریب پریشان ہوگئی اور ابھی ہم فخرو بھائی کی یادداشت پر ہی غور کررہے تھے کہ پلان کے مطابق ایک اور 85 سالہ بابے کو وزیراعظم بنا دیا گیا اور وہ بھی بالکل اسی طرح جیسے سیاست کے ڈان چاہتے تھے یعنی نہ پہلے نہ دوسرے بلکہ آخری مرحلہ میں آخری چند گھنٹوں میں فیصلہ ہوا تاکہ کوئی اعتراض کرنے کا موقع ہی نہ رہے۔ میں نے اپنے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے چکر میں کام کے لوگوں سے بات کی اور صرف کام کے سوال پوچھے تاکہ اندازہ ہو کون کدھر کھڑا ہے۔ معلوم ہوا ایک بے ہنگم اور تضادات سے بھرپور سوالات کا ٹوکرہ ہر کوئی سر پر اٹھائے پھر رہا ہے،کسی کو نہیں معلوم صوبوں میں عبوری حکومتیں کون بنا رہا ہے ایکMethod in Madness ضرور نظر آیا۔ ہر کام آخری منٹ پر ہو رہا ہے اور بے یقینی کو طول دینا اس پلان کا اہم جز ہے۔ اچانک آخری وقت کوئی نام سامنے آتا ہے اور ابھی غور شروع بھی نہیں ہوتا کہ وہ عہدہ پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ 3 صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ایسے ہی بن گئے۔ سندھ میں اچانک معلوم ہوا 10 لوگ PPP اور 8 ایم کیو ایم کے وزیر بن گئے۔ جہاں بھی گیا اور جس بڑے سے بڑے سیاستدان، جنرل اور افسر سے ملا ایک بات سب نے کہی۔ ”ہم الیکشن کی طرف ہچکولے کھاتے بڑھ تو رہے ہیں مگر کسی کو یقین نہیں تھا کہ الیکشن ہوں گے اور ہو بھی گئے تو کیا گل کھلائیں گے۔ پنڈی میں باقاعدہ یہ سوال اٹھا کہ کیا وزیر اعظم کی Capcity دیکھی گئی تھی۔ کچھ لوگ مگر بڑے پُرعزم ہیں اور کہتے ہیں فوج نے کسی بھی طرح کی مداخلت نہ کرکے اور سیاست کے ڈان اور ڈانگریوں کو کھلا ہاتھ دے کر ایک ایسا پتّا کھیلا ہے جو آخر میں سب کو مجبور کر دے گا کہ وہ اعلان کردیں کہ جمہوریت کیلئے یہ سیاست دان قابل نہیں ہیں اور مکمل ناکام ہوگئے ہیں۔ میں اکثر لکھتا ہوں کہ فوج کو بلیک میل کیا گیا ہے مگر یہ بھی اب سامنے آ رہا ہے کہ فوج جان بوجھ کر یہ سب برداشت کرتی رہی ہے اور سیاست کے ڈان جب اپنا کالا منہ کروا کر ناکام ہو جائیں گے تو پھر ان کو TV پر وہ سارے شیشے دکھا دکھا کر چھتر لگائے جائیں گے۔ ایک صاحب نے پنڈی کے ایک رات کے کھانے پر کہا کہ ذرا سوچئے اگر فوج کے سابق سربراہ اور ملک کے صدر کو ECL پر ڈال کر محصور کیا جاسکتا ہے تو باقی لوگ کیا بیچتے ہیں۔ ابھی تک تو کسی کو نہیں روکا گیا مگر کیا ایسا ممکن نہیں۔ بات تو غور طلب ہے۔ مثالیں تو بن رہی ہیں اور اگر الیکشن کے بعد اگر یہی افراتفری جاری رہی تو پھر سیاستدانوں کے پاس کیا جواز رہ جائے گا۔ میں اپنی ملاقاتوں اور اہم لوگوں کے پرائیویٹ تجزیوں پر مبنی مشاہدات تفصیل سے لکھوں گا مگر جو اہم بات ضروری ہے وہ فوج میں ایک ایسی بے چینی کی کیفیت ہے جسے بیان کرنا مشکل ہے ناممکن نہیں۔ جنرل کیانی کی جان کیری سے چار گھنٹے کی ملاقات کا کیا مطلب ہے۔ سارے معاملات طے ہوگئے ہوں گے مگر یہ سوال تو ہوا ہوگا کہ جنرل صاحب آپ تو چند مہینوں بعد ریٹائر ہو جائیں گے پھر ہم کس سے بات کریں گے اور اگر ایسا ہے تو پھر معاملات آپ سے کیسے طے ہو سکتے ہیں۔ سو جنرل صاحب نے کچھ تو یقین دلایا ہوگا کہ تسلسل یعنی Continuity کو رکھا جائے گا۔ یاد رہے کہ آنے والے سال اور مہینے امریکہ کیلئے اہم ترین ہیں اور پاکستان میں ان کو ایک مضبوط اور قابل اعتبار شخصیت کی اشد ضرورت ہے۔ وہ نہ زرداری صاحب ہیں نہ نواز شریف اور نہ عمران خان تو پھر کس گھوڑے پر شرط لگائی جائے۔