پائلٹس، لائسنس اور میرٹ!

July 02, 2020

یورپی یونین کی ایئرسیفٹی ایجنسی کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی یورپ پروازوں پر یکم جولائی 2020سے پابندی لگائے جانے کے فیصلے کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ماضی میں طویل عرصے تک دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں شمار کئے جانے والے ادارے کے تمام پہلوئوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور اس کا وہ مقام بحال کیا جائے جس کے باعث دنیا بھر میں بہترین فضائی میزبانی کے ادارے کے طور پر پی آئی اے کو پہچانا جاتا تھا۔ یورپی یونین کی ایئر سیفٹی ایجنسی، اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں اور کئی ممالک میں پاکستان میں رجسٹرڈ تمام فضائی کمپنیوں کو اقوامِ متحدہ کی فہرست سے نکالنے کے فیصلے کے باعث ملک کی ساکھ اور معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا ہے جس کی تلافی کے لئے خاصا وقت درکار ہوگا۔ 1967میں اور بعد کے برسوں میں پی آئی اے اپنی کارکردگی اور سروس کے اعتبار سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر تھا۔ محدود وسائل سے آغاز سفر کرنے والے اس ادارے کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اس نے کئی دوست ملکوں کو فضائی کمپنیاں بنانے میں مدد فراہم کی۔ اس دور میں پی آئی اے کے ہر شعبے میں انتخاب کا معیار صرف میرٹ ہوتا تھا اور اس ادارے کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگ اپنی فنی و تکنیکی مہارت پر فخر کرتے اور محدود وسائل کے باوجود حاصل ہونے والی مراعات پر خوش اور مطمئن نظر آتے تھے۔ اس پس منظر کا بیان اس اعتبار سے ضروری ہے کہ پاکستان جب سے بعض بین الاقوامی پیچیدگیوں کے باعث متعدد مشکلات کی زد میں آیا، اس کی ایئرلائن سمیت مختلف اداروں پر الزامات بھی سامنے آنا شروع ہوئے اور قومی ایئرلائن کی کارکردگی کے حوالے سے جو شکایات سامنے آئیں ان کے شکایت کنندگان میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جواپنی قومی ایئر لائن سے محبت کرتے اور اس میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ 22؍مئی کو پرواز PK-8303کریش ہونے کی جورپورٹ سامنے آئی اس میں فلاٹ سیفٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی کے نکات بھی شامل ہیں۔ وزیر شہری ہوا بازی کے پارلیمینٹ میں دیئے گئے بیان سے پاکستان کے 262پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہونے یا ان کے امتحان میں دھوکہ دہی کے امکانات سامنے آئے جس کے بعد ان پائلٹوں پر پابندی لگادی گئی۔وفاقی وزیر کے بیان میں حادثے کا ذمہ دار پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ دونوں پائلٹس پرواز کے دوران حاضر دماغ نہیں تھے۔ وفاقی وزیر کی پیش کردہ رپورٹ میں کئی ابہام ہیں۔ مثلاً ’’جعلی لائسنس‘‘ سے کیا مراد ہے، اس نوع کے لائسنس کیونکر جاری ہوئے یا جاری کئے گئے اور کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ادارہ میں جعلی لائسنسوں پر ہوائی جہاز اُڑانے جیسا حساس کام جاری رہے اور کسی کو چیکنگ کرنے یا عملے کی مستعدی پر نظر رکھنے کا خیال نہ آئے۔ اس معاملے میں اگر کوئی خرابی تھی تو اس کی ذمہ داری سے فیصلہ سازوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا جبکہ یہ واضح ہے کہ پائلٹ کے تربیت کے مراحل میں گرائونڈ ٹریننگ، ٹیسٹ، سنیمو لیٹر ٹریننگ، سی اے اے انسپکٹر کی چیکنگ سمیت کئی مراحل آتے ہیں۔ پھر اڑان کے گھنٹوں اور آرام کے گھنٹوں کے علیحدہ سخت ضوابط بھی ہیں۔ ماہرین کے مطابق سویلین طیارے متعدد سطحوں کے سیفٹی انتظامات کے ساتھ بنائے جاتے ہیں ان میں دو سے تین متبادل نظام ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے اس معاملے کے ہر پہلو کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور صرف پی آئی اے میں نہیں، ہر ادارے میں میرٹ کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئےنقائص دور کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے تاکہ ہر میدان میں وطن عزیز کی ساکھ بحال کر کے اسے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے صف میں لایا جا سکے۔