شرعی نظام یا مغربی جمہوریت

April 16, 2013

پاکستان میں جو کچھ جمہوریت کے نام پر ہوتا رہا ہے، اس سے عوام میں جمہوریت کے لئے یہ تصورات پیدا ہوئے ہیں کہ یہ ایک اچھا نظام نہیں ہے اور اس سے ملک و قوم غلط سمت میں جا رہی ہے اور جو اس نظام میں خیر کا پہلو تلاش کر رہے ہیں یا انہوں نے یہ امید باندھی ہوئی ہے کہ اس راستے پر چل کر وہ پاکستان کو وجود میں لانے کا مقصد حاصل کر لیں گے اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ آخر اس شعوری جمود اور سوچ کی بڑی وجہ کیا ہے۔ اور اس میں کہاں تک صداقت ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی نظام نہ خراب ہوتا ہے اور نہ کوئی اچھا اس کو خراب اور اچھا بنانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس کو چلاتے ہیں۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے اور جب بھی سول حکومت آئی ہے۔ اس کے کارندوں نے چلانے والوں نے جمہوری اقدار کی قطعاً پاسداری نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں نے معاشرہ میں ہونے والی خرابیوں‘ ماحول میں پھیلتی ہوئی بے راہ روی اور 1988ء کے بعد کے دور میں کرپشن کو اتنا بڑھاوا ملا کہ عوام نے یہ سمجھ لیا کہ جمہوریت ایک خراب نظام ہے، جس میں ایک سچا کھرا اور ایماندار شخص اور ایک قاتل ایک خراب شہرت رکھنے والا شخص اور ایک کرپٹ شخص برابر ہے اور کیوں کہ اس کے پاس بدی کی قوت ہے وہ سچائی کو روندتا ہوا نظر آتا ہے۔اس طرز عمل نے ذہنی جمود اور مایوسی پیدا کی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر ملک دولخت ہو گیا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جو سیاسی پارٹی الیکشن جیت گئی تھی اسے اقتدار سونپ دیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا مشرقی پاکستان کے لوگوں کی حق تلفی کا سلسلہ جاری رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے آزادی کا نعرہ لگایا اور ملک ٹوٹ گیا۔میڈیا اور عدلیہ کی آزادی نے یہ کرشمہ کر دکھایا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔ حکومتوں میں موجود لوگوں کے کرپشن اور بدعنوانیاں ہر ایک کو نظر آنے لگیں عدلیہ نے کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا اور نہ کر رہی ہے۔ وزیراعظم تک کو نہیں چھوڑا اس کو توہین عدالت کی سزا دے دی۔ اس کے بعد جو شخص وزیر اعظم بنا یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچ گیا ہے تلوار اس کے سر پر لٹک رہی ہے۔
جعلی ڈگریوں کے ذریعہ درجنوں سیاستداں قومی اسمبلی کے ممبر بن گئے اس جعلسازی اور دھوکا دہی کی مثال نہیں ملتی۔ یہ لوگ جعلسازی کے ذریعہ اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔ اور اس طرح وہ لوگ جو اسمبلیوں کے ممبر بننے کے اہل نہیں تھے ہاتھ اٹھا اٹھا کر قانون سازی کا حصہ بنے رہے ایسے قوانین کی کیا حیثیت ہے۔ جو ایسے لوگوں کی رائے سے ایکٹ بنے جو اسمبلیوں کے ممبر ہی نہیں تھے۔ جب یہ صورت حال سامنے آئی تو نوجوانوں میں جمہوریت کے خلاف ردعمل ہونا ایک لازمی امر ہے۔
گزشتہ دنوں اخبارات میں بی بی سی کے حوالے سے ایک جائزہ منظر عام پر آیا ہے۔ جس میں نوجوان نسل نے جمہوریت کو خراب نظام کہہ کر رد کر دیا ہے۔ اور وہ بیزاری کا اظہار کرتے ہیں نوجوانوں کا خیال ہے کہ شرعی نظام پاکستان کے لے بہتر ہے سروے کے مطابق پاکستان کے نوجوانوں کو پاکستانی فوج پر زیادہ اعتماد ہے۔ سیاست دانوں پر نہیں ہے یہ سوچ ایک لحاظ سے تشویشناک ہے جو سیاستدانوں کے کرپشن اور بدعنوانیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے گزشتہ پانچ سال میں میرٹ تباہ ہوگئی۔ سروے کے مطابق صرف 13 فیصد نوجوان جمہوریت کے حق میں ہیں۔جمہوریت کے خلاف یہ سوچ کس طرح تبدیل ہوگی میں نے 28 دسمبر 2000ء کے اپنے ایک کالم میں جس کا عنوان تھا۔” بنجر زمینوں میں فصل کی امید“ لکھا تھا کون وہ بندہ خدا ہوگا جو پاکستان کے لوگوں کوقول وعمل کی آزادی دلائے گا اس لئے کہ جب تک رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے کی آزادی نصیب نہیں ہوگی پاکستان میں نہ جمہوریت آسکتی ہے اور نہ ہی اچھی حکومت کا قیام عمل میں آسکتا ہے۔اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ شرعی نظام ہر نظام سے بہتر نظام ہے اور یہ جمہوریت کے خلاف نہیں ہے۔ پاکستان کا آئین اسی شرعی نظام یا شرعی جمہوریت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ جس کے حق میں پاکستان کے ستر فیصد نوجوان ہیں جب 2007ء میں اس برطانوی ادارے نے سروے کرایا تھا تو 50 فیصد نوجوان اس سوچ کے حامی تھے۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جب جب سول حکومتیں رہی ہیں ان کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں ہوئے۔ جس آئین کا انہوں نے حلف اٹھایا تھا اس کی روح ومنشا کے مطابق وہ حکومت چلانے میں ناکام رہیں۔ پاکستان کے عوام ایران میں شرعی نظام کے بعد کے ثمرات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اس کا نفسیاتی اثر پاکستان کے نوجوانوں پر بھی پڑرہا ہے۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر پاکستان کو سیکولر ریاست ہی بنانا تھا ہندوستان میں پاکستان بنانے کا مطالبہ برصغیر کے مسلمانوں نے کیوں کیا۔ مسلمان ایک الگ ریاست کا مطالبہ اس لئے کر رہے تھے تا کہ وہ اسلامی قدروں کے مطابق اپنی زندگیاں تشکیل دے سکیں۔
اب کچھ لوگ آئین کی آرٹیکل 62 اور 63 کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سیاست دانوں کے سروں پر لٹکتی ہوئی تلواریں ہیں۔ ایسا نہیں ہے یہ ان سیاستدانوں کو سیاسی میدان سے باہر نکالنے کی آئینی کوشش ہے جو دیانت اور امانت کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ وہ لوگ جو ان شقوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی اسمبلیوں میں ایسے لوگ ہوں جو خیانت اور بد دیانتی کے مرتکب ہوتے رہے ہوں۔ ایسے ہی لوگوں نے گزشتہ 25 سالوں میں آرٹیکل 62، 63 پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔ اگر عملدرآمد ہو جاتا تو اب تک پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ بن چکا ہوتا۔ اسمبلیوں میں خوف رکھنے والے ارکان ہوتے اور تبدیلی آچکی ہوتی۔ درحقیقت 73ء کا آئین ایسا ہے کہ اگر اس پر عمل درآمد ہو وہ بھی صحیح معنوں میں تو کوئی خائین اور بددیانت شخص اسمبلی تک نہیں پہنچ سکتا۔ ”مفاد پرستوں کے ہاتھوں جمہوری نظام کو تباہی سے بچانا عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری ہے ہر غیر آئینی عمل کو کالعدم قرار دینا عدلیہ پر لازم ہے۔ آئین کی تشریح اور تعبیر عدالت کا کام ہے، جلسوں اور جلوسوں میں مقررین کا نہیں۔ جمہوریت کی ناکامی کے بارے میں لوگ اسی وقت رائے تبدیل کریں گے جب کرپشن اور دھوکہ دہی سے پاک حکومت ہوگی اس دفعہ جس طرح امیدواروں کی چھان پھٹک کی جا رہی ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بڑی حد تک اچھے اور صاحب کردار لوگ اسمبلیوں تک پہنچ کر تبدیلی کی بنیاد رکھ دیں گے۔ اگر اس دفعہ بھی جمہوریت ناکام ہوئی تو کسی خیر کی امید نہ رکھی جائے۔