حجِ بیتُ اللہ

July 24, 2020

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

’’حج‘‘ دین کا بنیادی رکن اور ایک مقدس دینی فریضہ ہے۔فریضۂ حج کی ادائیگی اور بیت اللہ میں حجا ج کرام کی حاضری لازم وملزوم ہے۔حج کا تصور ذہن میں آتے ہی خانۂ خدا کعبۃ اللہ کی عظمت وجلالت اور اس کا تصورذہن میں گھومنے لگتا ہے۔ بیت اللہ کو اللہ جل شانہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیے جانے والے پہلے گھر کا شرف حاصل ہے۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، احادیث نبویؐ اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے، جیسا کہ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے، اس لیے جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکوٰۃدینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔(صحیح بخاری)

انسانی طبیعت یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنے وطن، اہل و عیال ، دوست ، رشتے داروںاور مال و دولت سے انسیت ومحبت رکھے اور ان کے قریب رہے۔ جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے، تو اسے اپنے وطن ، بیوی بچوں، رشتے داروں ،عزیز واقارب کو چھوڑ کر، مال و دولت خرچ کرکے فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے جانا پڑتا ہے۔ یہ سب اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حج کے حوالے سے بہت ہی رغبت دلائی ہے، انسان کوکعبہ مشرفہ کے حج و زیارت پر ابھارا، مہبط وحی و رسالت کے دیدار کا شوق بھی دلایا اورسب سے بڑھ کر شریعت نے حج کا اتنا اجر و ثواب متعین فرمایا ہے کہ سفر حج رب کے حضوراعتراف ِ بندگی کا مظہر اور ایک عاشقانہ سفر بن جاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال افضل ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لانا،عرض کیاگیا پھر ؟ آپ ﷺ فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ عرض کیاگیا،پھر کون سا عمل ؟آپ ﷺ نےارشاد فرمایا: حج مبرور۔(صحیح بخاری شریف،:۹۱۵۱)

حج مبرور سے مراد وہ حج ہے،جس کے دوران کوئی گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو۔ وہ حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔ وہ حج جس میں کوئی ریا اورنام نمود مقصود نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو۔وہ حج جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے ۔ وہ حج جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلے میں بھرپور دل چسپی دکھائے۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان(گناہوں)کا کفارہ ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم)

ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس نے (اس دوران) فحش کلامی، جماع اور گناہ نہیں کیا ، تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہوکر اپنے گھراس طرح) لوٹا، جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔(بخاری شریف، :۱۵۲۱)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: بڑی عمر والے، کمزور شخص اور عورت کا جہاد:حج اور عمرہ ہے۔(السنن الکبریٰ ، مسند احمد، للبیہقی)

ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں نےعرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم آپﷺ کے ساتھ جہاد اور غزوے میں شریک نہ ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر اور اچھا جہادحج مبرور ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے یہ سنا ہے، تو اس کے بعد سے حج نہیں چھوڑا ۔(بخاری شریف، حدیث:۱۸۶۱)

حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:حج اور عمرہ پر دوام برتو، کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو ختم کرتے ہیں ، جیسا کہ دھونکنی لوہے سے زنگ کو دور کردیتی ہے۔ (المعجم الاوسط، حدیث:۳۸۱۴)ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا کرو،کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو مٹاتے ہیں ،جیسا کہ بھٹی لوہے ، سونے اور چاندی سے زنگ ختم کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔(ترمذی شریف، : ۸۱۰)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ کے راستے کا مجاہد اورحج و عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اللہ نے انہیں بلایا، لہٰذا انہوں نے اس پر لبیک کہا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا ، تو اللہ نے انہیں نوازا ہے۔ (ابن ماجہ، :۲۸۹۳)

حج کرنے میں جلدی کیجیے،لہٰذا ہر بندۂ مومن جو صاحبِ استطاعت ہو، اسے زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ ضرور حج کا قصد کرنا چاہیے۔حضرت ابن عباسؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: حج یعنی فرض حج کی ادائیگی میں جلدی کرو، کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والا ہے۔(مسنداحمد،:۲۸۶۷)

حج نہ کرنے پر سخت وعیدہے،جیسا کہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اتنے زادراہ اورسواری کا مالک ہو جائے، جو اسے بیت اللہ تک پہنچادے، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے ، تو اس کے لیے کوئی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ یہودی ہونے کی حالت میں مرے یا نصرانی ، اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا، اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو، اس کی طرف راہ چلنے کی۔(جامع ترمذی)

حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ کچھ لوگوں کوان شہروں میں بھیجوں، پھر وہ ان لوگوں کی تحقیق کریں کہ جنہوں نے استطاعت کے باوجود حج نہیں کیا، پھر وہ ان لوگوں پر ٹیکس لاگو کریں، (کیوں کہ) وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں۔(السنۃ لابی بکر بن الخلال۵/۴۴)

حج کا بےپناہ اجر و ثواب جو احادیث مبارکہ کی روشنی میں تحریر کیا گیا، وہ کسی بھی مسلمان کو حج و عمرہ کا شوق دلانے کے لیے کافی ہے۔ جن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے، انہیں چاہیے کہ خود کو حج و عمرہ کے عظیم ثواب سے محروم نہ کریں، کیوں کہ ہم ہمہ دم نیکیوں کے حصول اور گناہوں سے مغفرت کے محتاج ہیں ۔ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کا کوئی پتا نہیں۔ یہ کاغذ کی ایک ناؤ ہے، جہاں تک پہنچ جائے غنیمت ہے۔ آپ کی چند دن کی زندگی چلی گئی، تو پھر کبھی واپس نہیں آئے گی۔ پھر حج کرنے میں کیوں تاخیر!

حج بیت اللہ تو مومنین کے لیے توبہ وانابت، روحانی تربیت،اور رجوع الیٰ اللہ کا بہترین ذریعہ ، بندگی واطاعت اور خودسپردگی کا مظہر ہے۔ ایک مومن کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ عشقِ خداوندی اور محبتِ الٰہی سے اپنے قلب وذہن کو مسحور رکھے۔ جب احرام باندھے اور تلبیہ ”لبیک اللّٰھم لبیک“ کا ورد کرے، تو ایسا محسوس ہوکہ بارگاہ الٰہی سے بندے کو اطاعت و فرماںبرداری کے لیے بلایا جارہا ہے، اس پکار سے آدمی کے اندر عبدیت وبندگی کا احساس تازہ ہو اور خواہش نفس پر قابو پانے کا جذبہ نشوونما پائے۔ اس عمل سے ہر ہر قدم پر تواضع وانکساری، روحانی کیف وسرور، خوف وخشیت، اخلاص وللہیت پیدا ہوجائے۔ صبر وتحمل کی عادت پڑجائے، فریضہٴ حج کی ادائیگی سے موٴمن ایسا پاک وصاف ہوجاتا ہے کہ حدیث نبویﷺ ’’التائب من الذّنب کمن لا ذنب لہ ‘‘کا حقیقی مصداق بن جاتا ہے۔