وزیراعظم عمران خان ہمارے مسائل کے حوالے سے مذاکرات کریں

July 27, 2020

وردہ طارق

پاکستان میں اس وقت بیشتر صنعتوں کو زوال کا سامنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایک طرف مہنگائی نے سراٹھا رکھا ہے تو دوسری طرف ہماری بڑھتی آبادی جس میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے ان کے لئے روز گار کی فراہمی بڑا ایشو بنا ہوا ہے کبھی وقت تھا کہ پڑھ لکھ کر ہمارے اکثر نوجوان سرکاری محکموں میں لگ جاتے تھے لیکن اب وہاں گنجائش ختم ہو چکی ہے اور تھوڑا پڑھا لکھا ہو یا زیادہ اسے اب ہر حال میں پرائیویٹ سیکٹر میں ہی روز گار تلاش کرنا ہو گا اور کرونا تو اب آیا لیکن اس سے پہلے بھی ہمارے ہاں نئی صنعت کا لگنا کوئی خاص حوصلہ افزا نہیں تھا اب کرونا نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے اور مہنگی ترین بجلی گیس اور بھاری ٹیکسز کے بعد کرونا سے معاشی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔

شیخ عمر حسین

لاہور کی ایمبرائیڈری صنعت پر گفتگو کے لئے ہم نے صدر ایمبرائیڈرز ایسوسی ایشن شیخ عمر حسین ،سنئیر نائب صدر راحیل حسین اور نائب صدر نوید شفیق سے رابطہ کیااور ان سے اس انڈسٹری کے شاندار ماضی اور مخدوش مستقبل کے حوالے سے گفتگو کی جو اس طرح رہی ۔

لاہورایمبرائیڈررز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے آج سے تقریباً تیس سال پہلے جب پاکستان میں انڈسٹری ڈیجیٹلائزیشن کا آغاز ہوا تو کئی قسم کی نئی صنعتیں متعارف ہوئیں اُن میں سے ایک کمپیوٹرائزڈ ایمبرائیڈری کی صنعت بھی شامل تھی اوائل میں جاپان،جرمنی اور کوریا کی درآمد شُدہ مشینری سے اس صنعت کی داغ بیل ڈالی گئی۔

راحیل حسین

مہنگی مشینری کی وجہ سے اس صنعت کا پھیلاؤ مُلکی ضروریات کے لئے ناکافی تھا لیکن اُس کے بعد چائنہ کی نسبتاً سستی مشینری کی درآمد سے اس صنعت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا اس صنعت کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے جہاں کپڑے و ملبوسات ، جُوتا سازی ، پردے و بیڈ شیٹ اور اس طرح کے دوسرے کاروبار تیزی سے ترقی کرنے لگے وہیں اس صنعت اور اس سے متصل دوسرے کاروباروں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے اور لاکھوں لوگوں کو قابل عزت روزگار نصیب ہوا۔

ملکی سطح پر خود کفالت کے بعد اس صنعت نے مزید سنگ میل عبور کیے جس کے نتیجہ میں یورپی ممالک، امریکہ بلکہ پوری دنیا میں ایمبرائیڈڈ مصنوعات برآمد کی گئیں اور اس کے علاوہ افغانستان اور اُس سے ملحقہ وسطی ایشیائی ریاستیں بھی پاکستان کی مارکیٹ میں شامل ہوئیں۔

نوید شفیق

شاندار ماضی رکھنے والی اور اپنے آغاز سے لے کر تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اس صنعت کے بُرے وقت کا آغاز اُس وقت ہوا جب دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے حکومت کو سرحدی نگرانی سخت کرنا پڑی جس کے نتیجہ میں افغان تاجروں کی آمد کا سلسلہ منقطع ہوگیا اس طرح پاکستان کو اس بڑی مارکیٹ میں اپنی موجودگی قائم رکھنے کے لئےخاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا اس وجہ سے اس پورے خطے میں پاکستان کے کاروباری مفادات بُری طرح متاثر ہوئے۔

ہمارے روایتی دشمن مُلک نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اور افغان تاجروں کو مراعات دینے کے سلسلہ کا آغاز کیا ۔مثال کے طور پہ ایک وقت دہلی- کابل ہوائی جہاز کا دوطرفہ کرایہ صرف دس ہزار انڈین روپیہ کر دیا گیا اور سستے ترین ائیر کارگو کی سہولت بھی فراہم کی گئی لیکن پاکستان کی معیاری ٹیکسٹائیل مصنوعات اور سٹریٹجک لوکیشن کی وجہ سے بھارت اس میں مکمل طور پر کامیاب تو نہ ہو سکا لیکن پاکستان کو بڑے کاروباری حصے سے محروم ہونا پڑا جس کا براہ راست اثر ایمبرائیڈری کی صنعت پر پڑا۔

مجموعی مُلکی معاشی صورتحال ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی بے قدری کی وجہ سے ایمبرائیڈری صنعت کا خام مال جو سفید اور رنگدار دھاگے کی شکل میں درآمد کیا جاتا ہے اُس کی قیمت میں ہو شربا اضافہ ہو گیا صرف دو ماہ کے قلیل عرصے میں خام مال کی قیمتوں میں تیس سے چالیس فیصد تک اضافہ ہوگیا۔

سالانہ وفاقی بجٹ 2020/19میں موجودہ حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر ٹیکس اصلاحات کا اعلان کیا گیا اور ٹیکسٹائل کی صنعت پر جنرل سیلز ٹیکس زیرو ریٹڈ کی بجائے 17 فیصد کا نفاذ کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے پہلے سے شدید دباؤ کا شکار ایمبرائیڈری صنعت کے خام مال کی قیمتوں میں مزید 17 سے 20 فیصد اضافہ ہوگیا ۔

جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ کے بعد تقریباً آدھی سے زیادہ ایمبرائیڈری صنعت بندش اور باقی ماندہ شدید زبوں حالی کا شکار ہے اس وجہ سے روزگار کے مجموعی اعشاریوں پر بھی بُہت بُرا اثر پڑا ہے یہ صورتحال حکومت کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے ۔کاروبار کرنے میں آسانی کے اعشاریے کے اعتبار سے پاکستان کا شُمار انتہائی نچلے درجوں میں ہو رہا ہے ۔ترقی یافتہ ملکوں میں کسی بھی صنعت کو خام مال مُہیا کرنے والی فیڈنگ انڈسٹری کی سپلائی چین معیار اور قیمتوں پر حکومتی اداروں اور آزاد ریگولیٹری اتھارٹیز کا سخت نگرانی اور جانچ پڑتال کا ایک باقاعدہ نظام وضع کیا جاتا ہے۔لیکن وطن عزیز میں اس طرح کی کوئی روایت موجود نہیں۔

آٹا چینی اور آئل مافیاز کی طرح ایمبرائیڈری صنعت بھی کارٹل مافیا کا شکار ہے ہمارے استعمال میں آنے والے خام مال(دھاگہ مشینری ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر)پر مٹھی بھر افراد پر مشتمل گروپ کی اجارہ داری ہے جو جان بوجھ کر سپلائی چین میں رکاوٹ اور قیمتوں میں من مرضی کے اضافے سے صنعت کا استحصال کر رہے ہیں مزید یہ کہ جنرل سیلز ٹیکس کو اپنی قیمتوں میں شامل کرنے کے باوجود بے نامی انوائسز کے ذریعے نہ صرف ایمبرائیڈرز کا استحصال کر رہے ہیں بلکہ قومی خزانے اور محاصل اکٹھے کرنے کی حکومتی کوششوں کو بھی نقصان پُہنچا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ قیمتوں میں من مانے اضافے کے علاوہ دھاگہ ساز کمپنیاں ناپ تول میں کمی جیسے اخلاقی جرم میں بھی ملوث ہیں ،دھاگے کی طے شدہ مقدار 3000 میٹر کو پہلے 3000 گز کیا اور اُس کے بعد اس میں مزید کمی کردی گئی اور دھاگے کی مقدار 2700 گز کی حد تک لے آئے۔

گزشتہ سال لاہور ایمبرائیڈرز ایسوسی ایشن کی طرف سے لیبارٹری سے دھاگے کی ٹیسٹنگ کروا کر اس کی رپورٹ شائع کی گئی جس میں تمام دھاگہ ساز کمپنیاں ناپ تول میں کمی جیسے بُرے عمل کی مرتکب پائی گئیں۔

حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے مطالبات پر ہمدردانہ غور کیا جائے تاکہ ہم اپنی صنعت کا پہیہ رواں دواں رکھ سکیں اور اپنی ورک فورس جو کے لاکھوں افراد پر مشتمل ھے جن کے روزگار سے لاکھوں خاندانوں کے چولہے جلتے ہیں اور یہ افراد ہنر مند لیبر کا درجہ رکھتے ہیں جو آج روزگار کمانے سے قاصر ہیں اور حکومتِ وقت کے توجہ کے طلبگار ہیں۔