زرعی ٹیکس سے سالانہ 69ارب روپے کی آمدنی ہوسکتی ہےٗ ایف بی آر

August 06, 2020

اسلام آباد (مہتاب حیدر) ایف بی آر کا کہنا ہے کہ زرعی انکم ٹیکس سے سالانہ 69 ارب روپے کی آمدنی ہوسکتی ہے۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک شاہد حفیظ کاردار کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے سی پیک ٹیکس استثنا کا مکمل حساب نہیں لگایا ہے۔ جب کہ ٹیکس ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا تھا کہ حکومت کو قرض دہندگان سے 40 کروڑ ڈالرز قرض لینے کا مشورہ کس نے دیا۔ تفصیلات کے مطابق، ایف بی آر کے ٹیکس گیپ تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ فی ایکڑ 50 ہزار روپے ٹیکس جمع کرنے کی صورت میں زرعی انکم ٹیکس کے ذریعے سالانہ 69 ارب روپے کی آمدنی ہوسکتی ہے. فی الحال جاگیردارانہ پس منظر رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کی وجہ سے تمام صوبوں سے مجموعی زرعی ٹیکس 1.5 ارب روپے سے کم ہے۔ ان اعدادوشمار کا تبادلہ ایف بی آر کے اعلیٰ حکام نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی جانب سے منعقدہ آن لائن کانفرنس میں کیا۔ جس میں معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ندیم الحق، سابق گورنر اسٹیٹ بینک شاہد حفیظ کاردار اور معروف وکیل اور ٹیکس ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر ایف بی آر کی ٹیکس افسر ریما مسعود کا کہنا تھا کہ کسی شعبے سے قطع نظر ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگنا چاہیئے۔ موجودہ قوانین کے تحت ایف بی آر کو زرعی انکم ٹیکس جمع کرنے کا اختیار نہیں ہے بلکہ یہ صوبوں کا اختیار ہے۔ تاہم، ایف بی آر نے اس حوالے سے ٹیکس گیپ تجزیہ کیا ہے جس کے تخمینے کے مطابق اس ضمن میں سالانہ ٹیکس آمدنی میں 69 ارب روپے کا خسارہ ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے تخمینے کے مطابق، ٹیکس استثنا کی وجہ سے سالانہ بنیاد پر 12 کھرب روپے کا خسارہ ہورہا ہے جو کہ جی ڈی پی کا 3 فیصد بنتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس استثنا میں ہرگزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، 2014-15 میں ٹیکس استثنا 412 ارب روپے تھا جو مالی سال 2019-20 میں بڑھ کر 1149 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ بجٹ میں ایف بی آر نے 9 ودہولڈنگ ٹیکسز ختم کیے اور مزید ودہولڈنگ ٹیکسز میں کمی مرحلہ وار ہوگی۔ ایف بی آر کا منصوبہ ہے کہ آئندہ چند برسوں میں 30 سے 40 ودہولڈنگ ٹیکسز ختم کیے جائیں۔ تاہم، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹیکس دائرہ کار کو بڑھائے بغیر شرح ٹیکس اور ٹیکسز کی تعداد کم نہیں کی جاسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ایف بی آر کو مسلسل مختلف اقدامات کرنا ہوتے ہیں کیوں کہ جی ڈی پی شرح کے مطابق ٹیکس اضافے کا دبائو ہوتا ہے۔