خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

August 11, 2020

مسلمانوں کے زوال کا باعث ہمیشہ مسلمان حکمراں ہی رہے ہیں۔ مسلم حکمرانوں نے ہمیشہ ذاتی مفادات کو مسلمانوں کے مفادات پر ترجیح دی اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ کشمیر کو دیکھ لیں بھارت نے گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور 80لاکھ مسلمانوں کو محکوم بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے تو تمام حدیں پار کر لی ہیں۔ دوسری بار عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد تو اس نے لاکھوں نہتے کشمیریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ہر نیا دن کشمیریوں کی مشکلات میں مزید اضافے کی خبر لاتا ہے۔ آر ایس ایس کے ایجنڈے اور ہندو توا کے فروغ پر عمل پیرا نریندر مودی نے بھارتی مسلمانوں کی زندگی بھی تنگ کر رکھی ہے۔ دہلی میں مسلمانوں کا قتلِ عام اور ان کی املاک کو تباہ کیا گیا ہے۔ آر ایس ایس کے غنڈے آج بھی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں کا گھیرائو کر کے ان پر تشدد اور قتل کرتے ہیں۔ انسان کو ہمیشہ زیادہ گلہ اپنوں اور دوستوں سے ہوتا ہے کیونکہ انسان ان ہی سے امیدیں رکھتا ہے لیکن اگر مشکل میں وہ ساتھ نہ دیں بلکہ اس کے دشمن کے ساتھ دوستیاں بڑھاتے اور نبھاتے رہیں تو پھر ایسے اپنوں اور دوستوں سے گلہ تو بنتا ہے۔ لاکھوں کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے کو اگر کوئی مسلمان ملک اعلیٰ ایوارڈ دے اور اس کے گلے میں ہار پہنا دے تو اس کو کیا کہنا چاہئے۔ اگر مسلمانوں کے بدترین دشمن کے ملک میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جاتی ہو اور نام نہاد او آئی سی میں بھی اس دشمن ملک کو مدعو کیا جاتا ہو تو اس کو کیا کہنا چاہئے۔ صرف پاکستان ہے جو اپنے مسلمان کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور نا مساعد حالات کے باوجود کھلے عام کشمیریوں کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کرتا اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں سے دنیا کو آگاہ کرتا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی مسلمان ہوں یا روہنگیا کے یا دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہو، کے خلاف آواز بلند کی ہے لیکن دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ مسلم حکمران مسلمانوں پر ظلم و جبر کے خلاف مذمتی بیانات سے آگے نہیں جاتے۔جن مسلم حکمرانوں نے اقتدار اور ذاتی مفادات کو ترجیح دی ہے تاریخ نے ان کو معاف نہیں کیا ہے۔ تاریخ میں صرف ان کا نام اچھے اور تعریفی الفاظ سے زندہ ہے جنہوں نے دین اسلام اور انسانیت کی خدمات کو دنیاوی مفادات پر ترجیح اور فوقیت دی ہے۔ خلفائے راشدین اور بعض مسلمان حکمرانوں کو چھوڑ کر بیشتر کی کمزوری تین چیزیں رہی ہیں اقتدار کی مضبوطی یا حصول زر اور زن۔ دنیا نے دیکھا ہے کہ ایسے حکمرانوں کا انجام آنیوالوں کیلئے نوشتہ دیوار بن گیا۔ کیا آج کے مسلم حکمران بجائے عبرت حاصل کرنے کے ان ہی گمشدگان کی روش پر عمل پیرا ہیں۔ اگر ہم نے ہمت کر کے کسی دوست ملک یا ملکوں سے شکوہ کیا اور اس کو اس کا فرض ادا کرنے کے لئے آگاہ کرنے کی کوششیں کیں تو کیا برا کیا۔ اس پر اتنا واویلا کرنے کی کیا تک ہے۔اور یقینا ًوہ دوست ممالک اس پر مثبت رد عمل ظاہر کریںگے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے مظلوموں کی مدد کے لئے آگے آئیں گے اور یہی اسلامی ممالک کے اقتدار اور حمیت کا تقاضہ ہے۔ آخر اب تو تمام مسلمان ممالک ایک ہو جائیں اور نہتے و مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کو احساس دلائیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔اس طرح دنیا کو بھی احساس ہو جائے گا اور بےبس و لاچاروں کو ظالموں سے نجات مل جائے گی۔ یہ مسلمان حکمرانوں کا فرض بھی ہے اور ان کے لئے بہترین موقع بھی ہے۔

آج اگر مسلمان حکمران کشمیری،فلسطینی اور دیگر بہت سے نہتے،مطلوم اور بےبس مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیں گے اور ذاتی مفادات کے لئے ان مظلوموں کو ظالموں اور مسلمانوں دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑیں گے تو تاریخ ان کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ کشمیری اب بھی مسلمان حکمرانوں کی راہ تک رہے ہیں اور کہتے ہیں۔ بقول غالب

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک