ٹائیگر فورس

August 16, 2020

جب ٹائیگر فورس کو پہلی دفعہ وجود میں لایا گیا اور یہ بات کہی گئی کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے دنوں میں یہ فورس حکومت اور انتظامیہ کی مدد کرے گی اور کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں ایک اہم ستون ثابت ہوگی تو میڈیا، اپوزیشن اور معاشرے کے مختلف حلقوں سے سخت تنقید سامنے آئی۔ ایک وبا کے دوران جب ضرورت ادویات، اسپتال کے سامان، ماسک، گلوز اور دیگر چیزوں کے ساتھ قانون کی بالادستی کی تھی تو یہ سمجھ سے بالاتر تھا کہ اِن نوجوانوں کو اکٹھا کرکے اِن سے کیا کام لیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ یہ غریب لوگوں تک کھانا پہنچائیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور اگر کہیں ہوا بھی تو وہ معنی خیز پیمانے پر نہیں تھا۔ پھر کئی دکانداروں کی طرف سے یہ شکایات بھی موصول ہوئیں کہ جہاں پہلے صرف پولیس عوام کی جیبوں سے پیسے نکلوانے میں بدنام تھی وہاں ٹائیگر فورس والے بھی لاک ڈائون کے دوران اپنے ساتھ تالے لاکر دکانوں کو پہلے سیل کرتے تھے اور رسید دیے بغیر پیسے لے کر ڈی سیل بھی کر دیتے تھے، ایسا کام جن کا ان کو کوئی اختیار یا قانونی اجازت نہیں تھی۔ کورونا وائرس کی وبا کے مقابلے میں ٹائیگر فورس کارآمد رہی یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اوپر اللہ کا یہ خاص کرم رہا ہے کہ نہ کوئی سہی لاک ڈاؤن تھا، نہ ماہرین کے مطابق سہی ڈیٹا ہے اور نہ ہی لوگ حفاظتی تدابیر اور ایس او پیز کو فالو کر رہے ہیںلیکن پھر بھی یہاں کورونا وائرس نے ویسی تباہی نہیں مچائی جیسی دیگر ممالک میں مچائی ہے۔ ہنسی مذاق میں ہم کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان کو صرف اللہ ہی چلا رہا ہے لیکن کورونا وائرس کی وبا نے اِس بات کو ثابت بھی کر دیا ہے۔

یہ تو ہو گئی کورونا کی بات لیکن چند روز قبل جب ٹائیگر فورس ڈے منایا گیا اور ان نوجوانوں کو شجر کاری مہم میں استعمال میں لایا گیا، جو کہ ایک بہت خوش آئند بات ہے اور شاید ٹائیگر فورس سے لئے جانا والا پہلا درست اور مناسب کام بھی۔ ہماری سیاسی جماعتیں ماضی قریب میں نوجوانوں کو زیادہ تر دو ہی مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں، یا تو ریلیوں میں شور مچانے اور نعرے بازی کے لئے یا پھر سوشل میڈیا پر لڑائیاں لڑنے کے لئے۔ کچھ چھوٹی سیاسی جماعتوں کے علاوہ کہیں بھی نوجوانوں کو کوئی مثبت اور نتیجہ خیز رول نہیں دیا گیا اور نہ ہی میرٹ پر نوجوانوں کو آگے انے کا موقع دیا گیا۔ کوئی مثبت رول نہ دینے کو تو پھر بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی جگہ منفی طریقے سے بھی اِن کو استعمال کیا گیا۔ اسٹوڈنٹ پولیٹیکس اور یونین بھی بند ہے، جہاں سے نوجوان سیاست دان اُبھرتے تھے اور صرف سیاسی خاندان سے وابستگی ضروری نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح نوجوانوں کے مسائل جن میں تعلیم اور اچھا روزگار سَرفہرست ہیں، انہیں قومی ترجیحات میں کوئی خاص مقام حاصل نہیں ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو صرف بیانات کی حد تک ہے۔ نوجوان پاکستان کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہیں لیکن اُن کے بارے میں سوچنا، ان کے مسائل حَل کرنا حکومتی ترجیح نہیں۔

ایک خوبی جو تقریباً ہر پاکستانی نوجوان میں ہے، وہ یہ ہے کہ وہ ملک کی کسی نا کسی طرح خدمت کرنا چاہتا ہے اور ملک کے لئے اچھا ہی سوچتا ہے۔ وہ پاکستانی نوجوان جو ملک سے باہر بھی چلے جاتے ہیں، اُن کا دِل ہمیشہ پاکستان کے لئے ہی دھڑکتا ہے لیکن ان تمام نوجوانوں کے لئے مثبت انداز سے معنی خیز خدمت کرنے کے مواقع بہت محدود ہیں۔ حکومت یا حکومتی مشینری کا براہِ راست حصہ بننے کے علاوہ شاید اُن کے پاس کوئی اورمواقع موجود نہیں ہیں۔ ٹائیگر فورس کو جس طرح شجر کاری مہم میں استعمال کیا گیا اور جس طرح نوجوانوں نے اِس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، یہ بتاتا ہے کہ نوجوانوں کو اگر اچھی سمت میں لگایا جائے تو یہ ملک کیلئے کتنا اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ اِس سلسلے کا اختتام نہیں آغاز ہونا چاہئے، ویسے بھی ہمارے نوجوانوں کے پاس تعلیم اور نوکری یا کاروبار سے باہر پروڈکٹو کام کرنے کے مواقع بہت کم ہیں اور اگر حکومت اِس طرح کے پلیٹ فارم ترتیب دینے میں آگے بڑھی تو نوجوانوں کا بھی فائدہ ہے اور ملک کا بھی۔

اگرچہ ٹائیگر فورس کو ایک سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے لیکن اِس کے ماخذ سے زیادہ اِس کے استعداد پر غور کرنا چاہئے، اِس کو غیرسیاسی اور ملک کے تمام نوجوانوں کے لیے ایک پلیٹ فارم بنانا چاہئے۔ اِس سے بہت سارے نوجوانوں کو ایک اچھی سمت بھی ملے گی اور سیکھنے کا موقع بھی۔ سب سے اہم شاید یہ بھی ہے کہ جس طرح نوجوانوں کی سیاسی معاملات میں سیاسی پارٹیوں نے غلط تربیت کی ہے، اس کو بھی ریورس کرنا ضروری ہے اور برداشت اور مل جل کر چلنے کے جذبے کو آگے لانا ہے۔ یہ پاکستان کے لئے اور پاکستانی نوجوانوں کے لئے ایک بہت بڑی خدمت ہو سکتی ہے۔