شہرِ قائد حکومتی توجہ کا طالب

August 19, 2020

موجودہ حکومت کے آنے سے قبل وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کی دولت لوٹنے والوں سے نہ صرف رقم نکلوائیں گے بلکہ انہیں کڑی سزا بھی دیں گے، ملکی دولت لوٹنے کے حوالے سے نیب میں بھی کئی اہم مقدمات زیر سماعت ہیں مگر تاحال ان سے ابھی تک کوئی بھی رقم ملکی خزانے میں واپس نہیں آسکی ، ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس کرنے کے لئے حکومت فوری طور پر ایمنسٹی کا اعلان کرے، جس میں سیاست دانوں، بیورو کریٹس، صنعت کاروں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت حکومت کو واپس کردیں ، ان کو کسی قسم کی سزا نہیں ملے گی، ملک کے کئی ادارے گروی رکھ دئیے گئے ہیں، ایمنسٹی کے فیصلے سے ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے جبکہ معاشی طور پر صورت حال بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے، مستحکم ادارے بھی ہچکولے کھارہے ہیں، نیب کو انتقامی انداز میں استعمال کرنے سے تاجر برادری بھی پریشانی کا شکار ہے،بے روزگاری عروج پر ہے، ان حالات میں پاکستان کو ایسی ایمنسٹی کی ضرورت ہے جس سے ہر کوئی فائدہ اٹھاسکے ۔ ایمنسٹی کے اعلان سے سیاست دانوں کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا،اس وقت پی آئی اے، پاکستان ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز، پورٹ قاسم، کے پی ٹی جیسے ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں، پی آئی اے ایک زمانے میں دنیا کی ٹاپ ٹین ایئر لائن میں شامل تھی مگر اب اس میں سفر کرتے ہوئے مسافر خوف زدہ ہوتے ہیں، پاکستان ریلوے تباہ ہوچکی ہے،دوسری جانب ڈالرز اور سونے کی قیمتوں میں اضافے سےعوام پریشان ہیں، پیٹرول، گیس کی قیمت میں اضافے سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے، مہنگائی اور بے روز گاری عروج پر ہے، اس صورت حال میں مربوط حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ کراچی ملک کا معاشی حب ہے جہاں چاروں صوبوں کے لوگ روزگار حاصل کررہے ہیں، حکومت اس شہر کو پاکستان کا معاشی دارالحکومت قرار دے کر اس کی ترقی اور اس کے انفر اسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ وفاقی حکومت کو اس شہر کے حوالے سے اہم ترین اقدامات اور فیصلے کرنا ہوں گے ،ورنہ اس شہر کی تباہی سے ملکی معاشی صورت حال بھی تباہ ہوجائے گی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی کی صورت حال پر جو ریمارکس دئیے ہیں اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ سندھ حکومت کو کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، انہوں نے بلدیاتی نمائندوں کو ان کی نااہلی پر تنقید کا نشانہ بنایا، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جب تک کراچی کو اہمیت نہیں دی جائے گی ملک کی معاشی صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی ہے بدقسمتی سے کراچی کو پچھلے 12 سال سے سندھ کی حکومت نے کوئی اہمیت نہیں دی اس کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنادیا۔ گیس کی بندش اس شہر میں معمول بن گئی ہے جس کی وجہ سے سی این جی کا مستحکم کاروباری شعبہ بھی ہچکولے کھانے لگا ہے اس کے مالکان کے لیے ملازمین کو تنخواہ دینا مشکل ہوتا جارہا ہے جبکہ سی این جی وہ ایندھن ہے جس سے ہم اپنے کاروباری معاملات کو بہتر انداز میں چلاسکتے ہیں کراچی جیسے شہر کے بارے میں اس سے زیادہ افسوسناک بات کیا ہوگی کہ اس کے نالے کچروں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں جن کی صفائی کے لیے بلدیہ کراچی اور سندھ حکومت ناکام ہوگئی۔جس کے بعد سپریم کورٹ کو ان نالوں کی صفائی کے لیے این ڈی ایم اے کو ذمہ داری دیناپڑی جس کو سندھ حکومت نے اپنی نااہلی تصور کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ کراچی کے نالوں کی صفائی کی ذمہ داری این ڈی ایم اے کے بجائے سندھ حکومت کودی جائے جو سپریم کورٹ نے مستردکردی اس موقع پہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پر برہمی کا اظہار کیا اور کہاکہ دو نالوں کی صفائی کی تصاویر دکھاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کراچی کو صاف کردیا گیا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد سے کراچی کے عوام کو امید ہے کہ وہ کراچی کی از سر نو تعمیر کے لئے پاکستان آرمی کے کور آف انجینئر کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او کے تحت کراچی کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے لئے احکامات جاری کریں گے تاکہ سسکتا اور بلکتا ملک کا یہ شہر دوبارہ اپنےپائوں پر کھڑا ہوسکے۔