24/25

April 23, 2013

یوں تو ڈیرہ اسمٰعیل کی شناخت کے بہت سے حوالے ہیں مگرمیں نے اس شہر کو ہمیشہ غلام محمد قاصرکے حو الے سے پہچانا ہے جس نے کہا تھا
تم ناحق ناراض ہوئے ہوورنہ مے خانہ کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
گذشتہ پانچ سالوں میں اس شہر میں اتنی دہشت گردی ہوئی کہ ڈیرہ جسے پھولوں کا ڈیرہ کہا جاتا تھا وہ ”لہو کے ڈیرے “میں بدل گیااور اس کا سب زیادہ جمعیت علمائے اسلام کو ہوا جو مفتی محمود کے زمانے میں یہاں کی مقبول جماعت تھی مگرمذہبی بنیادوں پر ہونے والی دہشت گردی کے سبب رفتہ رفتہ لوگ اس جماعت سے متنفرہوتے چلے گئے۔گذشتہ انتخابات میں اس ڈیرہ اسمٰعیل خان کی دو نشستوں این اے 24/25میں سے ایک نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل کریم کنڈی نے کامیابی حاصل کی تھی اور دوسری نشست پر مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاالرحمن فتح مند قرار پائے تھے اگرچہ اس مرتبہ پیپلز پارٹی کو پورے ملک میں بہت کم نشستیں ملنے کا امکان ہے اور کسی بھی نشست پر کوئی یقینی بات نہیں کی جا سکتی مگر این اے 25سے فیصل کریم کنڈی کی کامیابی کے قوی ا مکانات ہیں کیونکہ جمعیت علمائے اسلام کی حالت پیپلز پارٹی سے بھی ناگفتہ بہ ہے۔اس نشست پر تو مولانا فضل الرحمن کے لوگ انہیں چھوڑ کر فیصل کریم کنڈی کے ساتھ مل رہے ہیں حتیٰ کہ غلام قادر بیٹنی جو جمعیت علمائے اسلام کے ٹانک سے ایم پی اے تھے وہ بھی انہیں چھوڑ کر فیصل کریم کنڈی کے ساتھ مل گئے ہیں ۔صرف ملا ہی نہیں انہوں نے ایم پی اے کی نشست پر پیپلز پارٹی کا ٹکٹ بھی لیا ہے۔ بیٹنی اس علاقہ کا بہت بڑا قبیلہ ہے اوریہ قبیلہ ہمیشہ سے دامے درمے سخنے مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیتا آرہا تھا ۔ فیصل کریم کنڈی کی جیت کا سبب صرف بیٹنی قبیلہ نہیں اس نشست پر یعنی ٹانک این اے 25 میں کنڈیوں کے اپنے بیس سے زائد دیہات ہیں اسی حلقے سے فیصل کریم کنڈی کے والد مرحوم فضل کریم کنڈی نے بھی مولانا فضل الرحمن کو شکست دی تھی ۔یہاں فیصل کریم کنڈی اور ان کے والد کو بھی بہت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔اس نشست پر غیر پٹھانوں کے پچیس دیہات ہیں جنہیں وہاں کی زبان سرائیکی میں ’جٹاپر‘ کہتے ہیں وہ تمام کے تمام فیصل کریم کنڈی کے ساتھ ہیں ۔ فیصل کریم کنڈی نے اس نشست پر چھ ارب روپے کے ترقیاتی کام کرائے ہیں۔جس میں تین ارب روپے کی خطیررقم یو ایس ایڈ نے دی تھی ۔فیصل کریم کنڈی نے وہا ں اکیس کلومیٹر لمبی نہر (وارن کینال )کے کا م کیلئے فنڈ مہیا کرائے جس سے ٹانک اور ڈی آئی خان کی ہزاروں ایکڑ بنجر اراضی سیراب ہوگی ۔ ٹانک میں گیس بھی فراہم کرائی اور پاسپورٹ آفس بھی بنوایا ۔وہاں کے محسود اور وزیر قبائل مولانا فضل الرحمن کے حامی ہیں مگران کے کئی ہزارجعلی ووٹ منسوخ کر دئیے گئے ہیں جس کا مولانا فضل الرحمن کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔فیصل کریم کنڈی اگر چہ خود پشتو بولنے والے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں مگر چونکہ وہاں95فیصد لوگ سرائیکی بولتے ہیں اس لئے فیصل کریم نے ہمیشہ سرائیکی زبان بولی اور سرائیکی صوبے کی حمایت کی ہے ۔ اسی حوالے سے فیصل کریم نے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر سرائیکی خبر نامہ شروع کرایا گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمٰعیل خان میں سرائیکی ڈپارٹمنٹ کے لئے خصوصی فنڈ فراہم کرایا اور اس نشست پر اب یہ صورت حال ہے کہ مقابلہ فیصل کریم کنڈی اور تحریک انصاف کے امیدوار داور کنڈی کے درمیان ہے۔
فیصل کریم پاکستان کے سب سے کم عمر ڈپٹی سپیکر رہے ہیں ۔وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ لندن میں بھی کام کرتے تھے اور محترمہ نے خود انہیں مولانا فضل الرحمن کے مقابلے کیلئے تیار کیا تھا کہ عالمی طاقتوں کو اندازہ ہو کہ پی پی پی کا ایک نوجوان کارکن مذہبی طاقتوں کے نمائندے اُس وقت کے قائد حزب ِ اختلاف مولانا فضل الرحمن کو شکست دے سکتا ہے جب فیصل کریم کوڈپٹی سپیکر بنایا گیا تو یہی کہا گیا تھاکہ یہ نوجوان لڑکا کس طرح ہاؤس چلا سکتاہے؟۔اگرچہ اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کا کردار اتنا اہم نہیں ہوتا مگر فیصل کریم نے پاکستان کی تاریخ میں ڈپٹی سپیکرکی حیثیت سب سے زیادہ اجلاس کرائے ہیں ریکارڈ قانون سازی کرائی ہے ان کی صلاحیت اور کاررکردگی پراپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان تک نے ان کی تعریف کی اور کہا کہ میری سیاسی زندگی میں اتنا اچھا ہاؤس کسی نے نہیں چلایا ۔
گذشتہ دنوں میرے دوست کالم نگار نے فیصل کریم کنڈی کے خلاف دوتین کالم لکھے ہیں ان کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے ۔کالم نگار اور فیصل کریم کنڈی کسی زمانے میں دوست ہوا کرتے تھے۔اس تعلق کا آغاز شاید لندن میں ہوا تھایہ ان دنوں کی بات ہے جب دونوں اتنے مشہور نہیں تھے ۔پھر کالم نگار جنگ کے کالم نگار اورفیصل کریم کنڈی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بن گئے۔مگر یہ تعلق زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا ۔تعلق ٹوٹنے کی وجہ یہ ہوئی کہ کالم نگار نے فیصل کریم کواپنے بھائی کو اولڈ ایم این اے ہاسٹل میں مستقلاً کمرہ دینے کے لئے کہا مگر فیصل کریم کنڈی یہ کام نہ کر سکے ا ورکالم نگار ناراض ہوگئے۔کسی کالم نگار کی ناراضگی کیا کیا گُل کھلا سکتی ہے اس کا اندازہ فیصل کریم کنڈی کو نہیں تھا۔میں پاکستان آیا تو ایک دن میں نے بھی کالم نگار کے بتائے گئے پلازے کی خریداری پرفیصل کریم کنڈی کو مبارک باد دی۔جس پر انہوں نے کہاکہ کالم نگار کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔وہ پلازہ میرا نہیں ہے بلکہ ووٹر اور سپوٹر انجینئر وقار قاضی کا ہے اس کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا تعلق ڈیرہ اسمٰعیل خان سے ہے۔
مگرکل رات اسلام آباد میں ایک دوست کے ساتھ میں ڈیرہ اسمٰعیل خان کے کچھ احباب کے پاس گیاوہ لوگ مجھے نہیں جانتے تھے۔ وہاں باتوں باتوں میں ایک شخص نے کہا کہ”یار میں فیصل کریم سے بڑا شرمندہ ہوں ۔میں نے اسلام آباد میں ایک پلازہ خریداتواس پلازہ میں ضروری تھا کہ ایک سینماہال بھی بنایا جائے ۔دوستوں نے مشورہ دیا کہ آپ مذہبی مزاج کے لوگ ہیں یہ قطعاً اچھانہیں لگے گا کہ آپ ایک سینما کے مالک ہوں سو میں فیصل کریم کے پاس چلا گیا کہ یار سی ڈی اے والوں سے کہو کہ اس کی پلاننگ پرمیشن میں سے سینما نکال دیں ۔سی ڈی اے والے بھی شاید یہی چاہتے تھے ۔فیصل کریم کنڈی کی سفارش پر انہوں نے فوری طور پر عمل کیا مگر اس سفارش کی اطلاع ملتے ہی میڈیا نے اس پلازے کو فیصل کریم کنڈی کا پلازہ قرار دیا ۔پلازے کے مالک انجینئر وقار قاضی کی گفتگو سن کر مجھے احساس ہوا کہ میڈیا جہاں ہزاروں سچی خبریں دیتا ہے وہاں کبھی کبھارکوئی غلطی بھی ہوجاتی ہے ۔سو میں اس وقت کالم نگار کے قلم کے داغ دھونے کی کوشش کر رہا ہوں۔
این اے 24ڈیرہ اسمٰعیل خان کی نشست پر بھی فیصل کریم کنڈی پیپلز پارٹی کی طرف سے امیدوار تھے مگر یہ دیکھ کر کہ ان کے علاوہ اس نشست پر چاراور امیدوار ہیں ۔انہوں نے بڑی عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے سینیٹر وقار احمدکو پیپلزپارٹی کا ٹکٹ دے دیا تاکہ اس سیٹ پرکہیں مولانافضل الرحمن نہ کامیاب ہوجائیں اور اب صورت حال وہاں یہ ہے کہ اس نشست پر اس وقت مقابلہ تحریک انصاف کے امیدوار مصطفی کنڈی اور سینیٹر وقاراحمد کے درمیان ہے مولانا تیسری پوزیشن پر چلے گئے ہیں یعنی اب مولانا کا مقابلہ پشتو فلموں کی معروف اداکارہ مسرت شاہین سے ہوگا۔ان دونوں نشستوں پر ایک عجیب و غریب صورتحال یہ بھی ہے کہ ن لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی کے ایم پی اے امیدوار بھی ایم این اے کی نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کر رہے ہیں۔ایک اطلاع کے مطابق ن لیگ کی لیڈر شپ کی طرف سے امیدواروں کو یہ ہدایت ملی ہے کہ اگر کہیں تحریک انصاف کا ایم این اے کا امیدوار جیت رہا ہے تو ن لیگ کے ایم پی ایز کے امیدوار تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست دلانے کے لئے پیپلز پارٹی کے ایم این اے کے امیدوار کی حمایت کر سکتے ہیں ۔ اس بات سے اندازہ ہو تا ہے کہ ن لیگ آئندہ حکومت پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر بنانے کے متعلق سوچ رہی ہے ۔مگر الیکشن کے نتائج اتنے حیران کن ہونگے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ششدر رہ جائے گی۔کیونکہ ن لیگ کا 26سالہ دورِ حکومت پنجاب کے عوام کے سامنے ہے۔نواز شریف 1980سے 1985تک پنجاب کے وزیر خزانہ رہے ہیں ۔ 1985سے1990تک نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ۔ 1990سے1993سے نواز شریف وزیر اعظم رہے۔ 1997سے 1999 تک نواز شریف وزیر اعظم اور شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔ن لیگ 2009سے 2010 تک وفاقی حکومت میں رہی اور 2009س ے2013تک شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ۔