نذرانہ ( یومِ دفاع کے موقعے پر خصوصی افسانہ)

September 06, 2020

دھول مٹّی کے بادل زمین سے اُٹھ کر آسمان سے ہم کلام ہونےلگے۔ دھویں کے مرغولے یہاں وہاں ،ہر طرف دھول مٹّی کے بادلوں سے ہم آغوش ہو رہے تھے۔یوں لگتا تھا، جیسے بہت سے دیو ہیں ،جو پہلے منہ سے آگ اُگلتے ہیں ،پھر دھواں۔قیامت کا منظر تھا،آگ کے الاؤ جابجا روشن تھے اور ان سے اُٹھتا دھواں نظر دھندلا رہا تھا۔کہیں لاشیں تھیں ،تو کہیں زخمیوں کی آہیں۔ خون کی سُرخی مٹّی کا سُر مئی رنگ سیاہی مائل کر رہی تھی۔اس میدان میں موت و حیات باہم دست و گریباں تھیں۔ زندگی اس جگہ بہت منہگی اور موت ارزاں تھی۔چمکتی آنکھیں پلکوں سے جھانکتے ہوئے یہ سارا منظر دیکھتی تھیں، مگر ایک لمحہ تھا، جو ان آنکھوں میں روشن زندگی کے چراغ بجھادیتا ۔موت ،زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ۔ زمین کانپتی اور لرزتی تھی،جس پہ کھڑا ہو نا آسان نہیں تھا۔دل ،گردہ چاہیے تھا، اس میدان میں جمےرہنے کے لیے۔

اوصاف احمد کا وجیہہ چہرہ دھول سے اَٹا ہوا تھا۔وہ اس میدان میں خم ٹھونک کے کھڑا تھا۔ایسی صورت ِحال میں دل تیزی سے دھڑکتے، دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔سارے دن کی کشمکش کے بعد جب شام کی سیاہ چادر نے اس میدان کو ڈھانپ لیا، تو اوصاف احمد ریت کی بوری سے سر ٹکا کر کچّی زمین پہ لیٹ گیا۔اُس کی آنکھیں شام کی سیاہی میں دیے کی لَو کی مانند روشن تھیں۔شام کی سیاہی آہستہ آہستہ رات کے اندھیرے سے بغل گیر ہو گئی۔آسمان کی کالی چادر پہ تاروں کے جگنو ٹمٹا اُٹھےاور وہ کافی دیر تک ٹکٹکی باندھے ان ستاروں کو دیکھتا رہا۔ تاروں کا یہ جگمگاتا منظر اسے کسی اور ہی دنیا میں لے گیا۔خوابوں کے اڑن کھٹولے میں وہ اپنے گاؤں پہنچ چُکا تھا۔اُسے لگا ،وہ اپنے کچّے گھر کے صحن میں چارپائی پہ لیٹا تاروں بھرے آسمان کو تک رہا ہے۔

باغ باغیچوں، کھیتوں کھلیانوں میں سے گھوم پھر کے آنے والی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرا رہی تھی۔فصلوں کی خوش بُو ہر سُو پھیلی تھی۔ کہیں دُور کوئی بانسری بجا رہا تھا۔کسی باغ کے رکھوالے نے اپنی فرصت کے لمحے بانسری کے حوالے کر دئیے تھے۔ اُسے لگا، پوری زمین ،آسمان،ساری کائنات محوِ رقص ہے۔ کبھی کبھار کسی بھینس کے ڈکرانے یا کسی کتّے کے بھونکنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔کسی وقت کوئی گیدڑ اپنی کریہہ آواز میں چیختا اور کیف و مستی کے اس ماحول میں کھنڈت ڈال دیتا۔ بابا کی کھانسی کی آواز بھی کبھی کبھار آ جاتی تھی۔اُن کی آنکھ جب کبھی تھوڑی دیر کے لیے کُھلتی وہ حقّے کا کش لگا لیتےتوحقّے کی گڑگڑاہٹ صحن میں پھیل جاتی۔اس کی ماں، بیوی اور بچّے گہری نیند میں تھے۔

اُسے یہ تمام مناظر اورسکون جنّت کا حصّہ لگے۔فجر کی اذان کے ساتھ ہی مُرغے بھی بانگیں دینا شروع کر دیتے۔ اُس کی بیوی اٹھ کے مدھانی سے دودھ بِلوتی ،بچّے سپارہ پڑھنے مسجد چلے جاتے۔وہ بھی نماز پڑھ کے دوہنہ اٹھاتا اور دودھ دوہنے کے لیے طبیلے کا رُخ کرتا۔سورج جب آہستہ آہستہ مشرق سے نقاب کشائی کرتا ، کرنوں کا سونا نہایت فراخ دلی سے کھیتوں کے دامن میں نچھاور کر دیتا تواس کے بچّوںسمیت گاؤں کےسب بچّے ا سکول کا رُخ کرتے۔کسان بیلوں کو ہانکتے ہل چلاتے۔ یہ سارے منظر کتنے سہانے اوردل فریب تھے۔جب بھی اوصاف احمد ڈیوٹی سے واپس چُھٹیوں پہ آتا تو لگتا، سارےسہانے دن لمحوں میں بیت جاتےہیں۔دوپہر کو چوپال میں بڑے بوڑھوں کی محفل جمتی، جوپرانے وقتوں کو یاد کرتے۔ غرض ،بزرگوں کی باتوں سے گرمیوں کی گرم دوپہریں گل و گلزار بن جاتیں۔ برسات کا موسم اس کا پسندیدہ موسم تھا۔اگست، ستمبر کے مہینے میں گاؤں کے درخت ہرے بھرے زمرد رنگ پیرہن اوڑھ لیتے تھے۔ وہ جب چھٹیوں کے بعد اپنی ڈیوٹی پر واپس جاتاتو گاؤں کی سوندھی سوندھی مٹّی کی خوش بُو اس کے ساتھ ہوتی۔

اُسے بچپن ہی سےاپنی مٹّی، دھرتی، اپنے لوگوں اور پاک فوج سے بے حد پیار اور لگاؤ تھا۔ اُسے خاکی وردی میں عجب ہی کشش محسوس ہوتی، یہی وجہ تھی کہ جب کسی فوجی کویکھتا تو حدّ ِ نگاہ دیکھتا ہی رہتا۔ کھیلتے کودتے، ا سکول جاتے اس نے فوج میں بھرتی ہونے ہی کے خواب دیکھے تھے۔اور پھر یوں ہوا کہ اس کے خوابوں کو تعبیر مل گئی اور وہ پاک فوج میں بھرتی ہو گیا۔ جب بھی اوصاف احمد یہ سوچتا کہ وہ دنیا کی بہترین فوج،پاک فوج کا حصّہ ہے تو اس کا سر فخر سے بلند ہو جاتا۔ تربیت کے دوران اس نے خود سے یہ عہد کیا تھا کہ وطن کی خاطر وہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک نثارکردے گا۔لانس نائیک،اوصاف احمد 8 ماہ بعد چُھٹی پہ گھر آیا تھا کہ اچانک جنگ کا بگل بج گیا۔ دشمن نے اچانک سرحد پر حملہ کر دیا تھااور رات کی تاریکی میں، بُزدلوں کی طرح چُھپ کر وار کیا ۔

اُسے جیسے ہی یونٹ سےچُھٹی منسوخ ہونے اور ڈیوٹی جوائن کرنے کا خط ملا ،تو اس نے ایک لمحہ ضایع کیے بغیرماں باپ کی دعائیں لیں اور نکل کھڑا ہوا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُڑ کر محاذِ جنگ پہنچ جائے۔ جب اگلے مورچوں پہ پہنچا تو مادرِ وطن کی حفاظت کے جذبےسے معمور ہر سپاہی کو وطن پر قربان ہونے کے جذبے سے سرشار پایا۔ اس کی ڈیوٹی مشین گن پہ تھی کہ وہ ماہر نشانہ باز تھا۔اس کی گن سے گولیاں دشمن کی موت بن کے نکلتی تھیں۔وہ اور اس کے ساتھی سیسہ پلائی دیوار بنے دشمن کی راہ میں کھڑے تھے۔ انہیں دن کی فکر تھی، نہ رات کی۔ کھانے پینے کا ہوش تھا، نہ سونے یا آرام کرنےکا۔ان کی نگاہیں تو بس دشمن پر ٹکی تھیں،دل وطن کی حفاظت اور اس پر مر مٹنے کے جذبات سے لبریز تھا۔انہیں سوائے مُلک و قوم کے اور کچھ یاد نہ تھا۔ اوصا ف احمد بھی مشین گن چلاتے بس وہی عہد دُہراتا، جو اس نےفوجی تربیت کےدوران اپنے آپ سے کیا تھا۔رات کی تاریکی میں جنگ کا میدان، کچھ سرد ہوا تھا، مگرصبح کی سپیدی نے اُسے پھر سے گرم کردیا ۔

گولہ داغنے کے بعد توپ کے منہ سے تھوڑی دیر کے لیے دھواں سا نکلتا، جیسے کسی دیو نے حقّے کا کش لگایاہو اور اب بڑے اطمینان سے دھواں اُگل رہا ہو۔بندوقیں گولیاں اُگل رہی تھیں۔ پچھلے ایک ہفتے سے اُن کی کمپنی نے دشمن کوایک انچ بھی آگے نہیں بڑھنےدیا تھا۔ اوصاف احمد جب اپنے گاؤں، اپنے والدین اور بیوی بچّوں کا سوچتا تو اس کے تھکے ٹوٹے بدن میں ایک نئی توانائی آجاتی۔ ویسے تو سارے ہی جوان بہادری سے لڑ رہے تھے ،لیکن اس نے دلیری کی وہ مثال قائم کی کہ کمپنی کمانڈر بھی بار بار اس کی پذیرائی کرتے۔اس نے دشمن کوبہت جرأت سے سرحد سے دُور رکھاہوا تھا۔

اور پھر… ایک رات دشمن نے اچانک ہی ٹینکوں کے ساتھ ایک بہت بڑا حملہ کیا،لگتا تھا آج وہ اندر گُھس آئیں گے۔پچھلے دس دن سیلاب کے آگے انہوں نے جو بند باندھ رکھا تھا ، گمان ہو رہا تھا کہ آج ٹوٹ جائے گا۔ دشمن کے ٹینکوں کا لشکر ایک طوفان کی طرح اُٹھا تھا اور اُن پہ آ پڑا تھا۔گوکہ دشمن طاقت اور تعداد میں ان سے کئی گُنا زیادہ تھا، لیکن پاک دھرتی کے محافظ شہادت کے جذبے سے سرشار تھے، بہت بہادری اور جواں مَردی سے مقابلہ کر رہے تھے۔ لیکن ٹینکوں کی صورت جو آہنی دیوزاد بڑھتے چلے آ رہے تھے ،ان کا کوئی توڑ نظر نہیں آ رہا تھا۔ان عفریتوں کے طلسم کے توڑ کے لیے کوئی اسم کام نہیں کر رہا تھا۔اوصاف احمد کی نشانےبازی شان دار تھی، اُس نے اپنے کمپنی کمانڈر سے التجا کی کہ اُسے اگلے مورچے پر بھیج دیا جائے تاکہ وہ اپنی مشین گن سے دشمن کے بڑھتے قدم فی الفور روک سکے۔ سو، کمانڈر نے بھی اوصاف کو پیش قدمی کرنے والے سپاہیوں کے ہم راہ آگے جانے کی اجازت دے دی۔ اگلے مورچوں پر زور دار جھڑپیں ہوئیں۔

ان کا ٹارگٹ دشمن کے مورچے پر قبضہ کرنا تھا۔ اسی پیش قدمی اور جھڑپوں کے دوران ایک ہینڈ گرینیڈ اوصاف کے پاس آگرا ،مگر آخری دَم تک اُس کی گن گولیاں برساتی رہی،اس کی بے نور ہوتی آنکھوں میں اس کے گاؤں کا منظر تھا۔لانس نائیک ،اوصاف احمد اپنےوطن ، گاؤں ، ہرے بھرے کھیتوں، مٹّی کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرچُکا تھا۔اس کے ساتھی بجلی بن کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور اس کے ایک نہیں بلکہ تین مورچوں پر قابض ہوگئے۔ اوصاف احمد اور اس جیسے کئی جوان توقربان ہوگئے، لیکن پاک سرزمین، پاکستان پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ انہوں نے اپنے بچّوں کو یتیم کرکے، کروڑوں بچّوں کو یتیم ہونے، ماؤں کی گود اجڑنے اور سہاگنوں کو بیوہ ہونے سے بچالیا تھا۔