خوشحالی اور بارش

September 01, 2020

ہمارے خطے میں ملکوں کی تقدیر بدلنے والے منصوبے کا آغاز ہو چکا ہے۔ اگرچہ اس میں کئی ملک شریک ہیں مگر سب سے اہم چین اور پاکستان ہیں۔ ویٹو پاور کا حامل چین طاقتور ملک ہے، اس نے اقتصادی میدان میں برق رفتاری سے ترقی کی، اس تیزی نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔

چین ٹیکنالوجی میں بھی آگے نکل گیا اور دفاعی لحاظ سے بھی اہم بن گیا، اب عالمی سیاست اس کے بغیر مکمل نہیں بلکہ اس نے عالمی سیاست کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ بندرگاہوں، سمندروں، میدانوں، پہاڑوں اور صحرائوں کو مختلف راستوں سے ملانے والا چین انتہائی اہم بن چکا ہے۔ چین کی اس تمام تر منصوبہ بندی میں پاکستان بہت اہم ہے۔ سی پیک کے مختلف منصوبے کیا شروع ہوئے، پاکستان کے دشمنوں نے یہاں بے ڈھنگا کھیل شروع کر دیا، مختلف سانپ چھوڑ دیئے گئے۔

اندرونی اور بیرونی سانپوں کو یہ ٹھیکہ دیا گیا کہ سی پیک کو ناکام بنائیں، گرائونڈ پر کارروائیاں کریں، میڈیا اور سوشل میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا کریں۔ نفرت پھیلائیں، آپ کی کھوپڑیوں میں جتنا زہر ہے، اُسے دھرتی پر پھیلا دیں۔ واضح رہے کہ اس مقصد کے لئے زندگی کے مختلف شعبوں کے لوگوں کو میدان میں اتارا گیا، کسی نے چینی انجینئرز اغوا کئے، کسی نے دھماکے کئے، کسی نے بدامنی پھیلانے کی کوشش کی، کسی نے جی بھر کے پروپیگنڈا کیا اور کسی نے اٹھارہویں ترمیم کا پتا پھینکا۔

پاکستان میں آج بہت سے مسائل اسی ترمیم کے طفیل دکھائی دیتے ہیں، کچھ لوگ ابھی بھی بضد ہیں کہ اسے ہر صورت رہنا چاہئے مگر شاید ملک اور خطے کے حالات کے لئے یہ ترمیم موافق نہیں ، شاید اسی لئے کوئی عدالت میں چلا گیا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام کا آغاز کیا جائے اور اس کے لئے ریفرنڈم کروایا جائے۔

خواتین و حضرات! صدارتی نظام کو ضروری کیوں سمجھا جا رہا ہے؟ اس اہم سوال کے جواب تک پہنچنے کے لئے ہمیں کم از کم پچھلے پینتیس سالہ سفر پر نگاہ ڈالنا ہو گی۔ 80کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ڈالر نو روپے کا تھا پھر دس کا ہو گیا اس دہائی کے وسط تک ڈالر بارہ روپے کا تھا اور پھر ہمارا نام نہاد جمہوری سفر شروع ہو گیا، یہ سفر ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے نگل گیا، صحت اور دیگر اداروں کو کھا گیا، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی گئی ڈالر بہت مہنگا ہو گیا۔ ٹھیکیدار ’’رج‘‘ گئے، ملک غریب ہو گیا، مقروض ہو گیا۔ اب سی پیک سے خوشحالی کے خواب بندھے ہوئے ہیں۔

چین گوادر کے آس پاس سمندروں پر 47ارب ڈالر مزید لگا رہا ہے۔ سی پیک کو خوشحالی کا راستہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ چین پاکستان میں مختلف شعبوں کے اندر 62ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، چین پاکستان میں منصوبوں کو بہت تیزی سے مکمل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں توانائی کی کمی کو دور کرنے کے لئے کئی منصوبوں کا آغاز ہو چکا ہے۔

ان میں سے صرف کوئلے کے منصوبوں کا ذکر کر دیتا ہوں۔ حبکو کول پاور پروجیکٹ 1320میگا واٹ، تھر پاور پروجیکٹ 660میگا واٹ، گوادر کول پاور پروجیکٹ 300میگا واٹ کے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اسی طرح دیامر ،بھاشا مہمند ڈیم اور نیلم جہلم پر ہائیڈل پروجیکٹس کے علاوہ مزید کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ خوشحالی کا یہ سفر تو جاری ہے مگر ہمارا یہ سیاسی نظام بد انتظامی اور بدانتظامی سے پھیلتی ہوئی بدصورتی کا عکاس ہے۔ یہاں ایک اٹھارہویں ترمیم نہیں کئی ایسی ترامیم ہیں جو ترقی کی راہوں میں کانٹے بکھیرتی ہیں۔

اس سیاسی نظام میں ’’کھائو پیو‘‘ پروگرام کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظام اتنا بے نقاب ہوا ہے کہ اس کا بھیانک ’’چہرہ‘‘ سامنے آ گیا ہے۔ کراچی کی حالیہ صورتحال نے سب کے جھوٹ بے نقاب کر دیئے ہیں اب یہ سیاستدان ایک دوسرے پر ملبہ ڈال رہے ہیں۔

کوئی ان سے یہ پوچھے کہ اس شہر پر کس کی حکمرانی رہی، یہ کس حکومت کا دارالحکومت ہے؟ اس شہر کے وسائل کہاں لگتے رہے، اس شہر کا پیسہ کون کھاتا رہا؟ پچھلے پینتیس برسوں میں کراچی کے خدمت گاروں نے کیا کیا؟ پاکستان کے دشمن بہت سازشیں کرتے ہیں، پہلے تو کراچی میں بدامنی کا کھیل کھیلا گیا، ہر طرف موت رقص کرتی رہی، مائوں کے بچے گولیوں کی نذر ہو گئے، کئی اصول پسندوں کو بوری بند صورت میں کراچی کی سڑکوں پر پھینک دیا گیا پھر اس شہر اور صوبے کی حکومتیں ایسے لوگوں کے حوالے کی گئیں جنہیں عوام سے زیادہ اپنی فکر تھی اس فکر میں وہ یہ بھول گئے کہ پاکستان کے معاشی مرکز کراچی میں صفائی بھی کروانا تھی۔

انہوں نے نکاسی آب کے لئے بنائے گئے نالوں پر کمرشل ازم کا جادو جگایا۔ حیرت ہے کہ لندن میں پڑھنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ بارش کے پانی کو بھی کہیں نہ کہیں جانا ہوتا ہے۔

میں نے لندن کی مثال اس لئے دی ہے کہ وہاں آٹھ مہینے بارش ہوتی ہے، لندن میں گھروں میں پانی داخل نہیں ہوتا، سڑکوں پر احتجاج کرتا ہوا بھی نظر نہیں آتا اور نہ ہی گاڑیاں ڈبوتا ہے۔ مثال ملائیشیا کی بھی دی جا سکتی تھی جہاں سال میں گیارہ مہینے بارش ہوتی ہے۔

کراچی کی حالیہ بارشیں سڑکوں، مکانات اورانفراسٹرکچر کی بربادی کا باعث بنیں۔ اس کے علاوہ کئی انسانوں کو نگل گئیں۔ جس بچے کی قبر بن جاتی ہے اس کی ماں کو پھر بھی قبر دیکھ کر صبر آ جاتا ہے اور جس ماں کا بچہ گٹر یا نالے کی نذر ہو گیا، وہ ساری زندگی نیم پاگلوں کی طرح رہے گی۔ کراچی کی حالیہ صورتحال کو وہاں رہنے والی شاعرہ ناصرہ زبیری نے بے بسی کے موسم میں شعری لباس پہنایا ہے کہ؎

مدت سے پنپتی ہوئی سازش نے ڈبویا

کہنے کو مرے شہر کو بارش نے ڈبویا

لوٹا ہمیں ہر چیز پہ قبضے کی ہوس نے

ہر شے کو نگلتی ہوئی خواہش نے ڈبویا