قرض خوری کا پھندہ اور دست نگری

September 03, 2020

دست نگر معیشت ہو اور کاروبارِ ریاست قرضکی مے خوری پہ چلتا ہو اور مفت خوری کاروباری طبقوںاور ریاستی اداروں کا شیوہ ہو تو بس افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن ہمارے اسٹرٹیجک اذہان کی کوئی اُڑان تو دیکھے، کون کہہ سکتا ہے کہ اِن کی چا بکدستیاںاور عظیم الشان پیش قدمیاںایسے ملک میںہو رہی ہیںجو اُدھار اُتارنے کے لیے اُدھار لینے پہ مجبور ہے۔ لوگو! کمر باندھو کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق دو برسوںمیںبیرونی قرض اور ادائیگیاں17.6ارب ڈالرز کے اضافے سے 113ارب ڈالرز ہو گئی ہیں۔ اور اس کے باوجودکہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے قرضوںاور سود کی مد میں24.5 ارب ڈالرز ادا کیے ہیں۔ روپوںمیں دیکھا جائے تو پاکستان کا کُل قرضعمران حکومت کے دو سالوںمیں11.35 کھرب روپے اضافے کے ساتھ 36.3 کھرب (36,300ارب) روپے۔ جب کہ گزشتہ دو برسوںمیںقرض کی واپسی پر 2.81 کھرب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ جاری مالی سال میںبھی وفاقی حکومت کو 2.2کھرب روپے قرضلینا ہے اور قرضکی ادائیگی کے بعد اُسے اصل زر ملے گا بھی تو صرف 495 ارب روپے۔ ان اعداد و شمار سے یہ نقشہ سامنے آتا ہے کہ آئندہ جتنا بھی قرضہم لیں گے وہ گزشتہ قرضکی ادائیگی کے بعد ہمارے جاری اخراجات کے لیے بچے گا بھی تو 25فیصد سے کم اور یہ آئندہ سالوں میںمنفی ہوتا چلا جائے گا۔ اب پی ٹی آئی، نواز لیگ کو جتنا بھی کوسے اور نواز لیگ کیسے ہی عمران خان کو بہتان دے۔ قرضکے پھندے سے جان چھوٹنے والی نہیں، نہ ہی ان جماعتوں کے پاس قرضسے خلاصی کرتے ہوئے پائیدار اور خود کفیل معیشت کا کوئی ڈیزائن ہے تو پھر اگلی حکومت عمران خان کو کوسے گی بھی تو کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ ماہرینِ معاشیات اسے قرض کا پھندہ (Debt Trap) کہتے ہیں۔ اور جو پنچھی ریاستیںاس جال میں پھنس جاتی ہیں، اُن کی خود مختاری اور آزادی قرض خواہوں یا دولت مند ملکوں کے پاس رہن ہو جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں ہمارے معزز وزیرِ خارجہ کے کشمیر پہ بیان پر اسلامی برادر ملک کا ردِّعمل۔ چین سے ایک ارب ڈالرز لے کر نذر کیے گئے۔ آخر اسٹیٹ بینک کب تک اتنی بڑی ٹرانزیکشن کو چھپائے بیٹھا رہے گا۔ پھر داد دینی چاہیے جناب شاہ محمود قریشی کو کہ وہ اس کی تردید کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں جھینپے۔ دوسری طرف مَیںایک بہت بڑے افسر کا یہ دعویٰسُن کر ششدر رہ گیا کہ کس طرح دس برس پہلے افغانستان سے امریکیوںکو بھگا دینے کا منصوبہ بن گیا تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اُن کے بقول اب جنگی میدان میںفتحکے بعد افغان طالبان کے مقابلے میںکون کھڑا ہو سکے گا، چاہے ہم اسے پسند کریںیا ناں۔ جہاںاقبال کے شاہین ستاروں سے آگے کمند باندھنے پہ تُلے ہوں اور نیچے زمین پہ کھڑا رہنے کی معاشی استعداد بھی نہ ہو تو فاتحہ خوانی تو بنتی ہے۔

مفت خوری (Rent Seeking) اگر معیشت و ریاست کا نصب العین ٹھہرے تو کسی بھی ملک کا دست نگری اور قرضکے پھندے سے نکلنا ناممکن ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کئی بار قرضسے جان چھڑانے کے خاکے بنا بنا کے ہانپ گیا ہے اور خود بھی قرضسے فیضیاب ہوتے ہوئے اُن منصوبوں کو طاقِنسیاںکی نذر کر چکا ہے۔ پارلیمنٹ نے بھی قانون بنا کر قومی آمدنی میںقرضکی شرح پہ بندش لگائی تھی اور جب سے وہ پابندی لگی تبھی سے ہر سال اس کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے اور عمران حکومت نے تو پچھلوںکا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ پہلے ہم نے امریکیوںاور سعودیوں کا دامن تھامے رکھا، پھر چین بھی مال دینے والوںمیں شامل ہو گیا۔ اب جونہی امریکہ افغانستان سے کوچ کرے گا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران کھولے گئے کھاتے پہلے ہی بند ہو گئے ہیں۔ اوپر سے افغانستان میںایک اور بڑی خانہ جنگی کا ملبہ ایک بار پھر ہمارے سر لگنا ہے، جبکہ افغان ریاست کو برقرار رکھنے کے لیے اگلے 20 برس 10 ارب ڈالرز سالانہ درکار ہوںگے۔ کیا ہم یہ بوجھ اُٹھانے کے لیے تیار ہوں گے؟ اوپر سے چین و بھارت کے مابین نہ صرف اسلحہ کی دوڑ میںبھارت کا حال بُرا ہوگا، بلکہ بھارت سے ہمارے اسٹرٹیجک مقابلے میںروایتی و غیرروایتی اسلحہ کی دوڑ میںایک بدحال پاکستان کا کیا ہوگا؟ یہ سوچتے ہوئے دماغ شل ہو جاتا ہے۔

قرضکے شکنجے سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تمام غیرپیداواری کاموںاور منصوبوںپہ قرضلینا بند کر دیں۔ کمرشل قرض خود پہ حرام قرار دیں۔ آسان شرائط پہ اگر قرضلیںبھی تو پیداواری منصوبوں پہ، جو نہ صرف قرضواپس کر سکیںبلکہ منافع بخش رہیں۔ پبلک سیکٹر کی تمام کارپوریشنز کے خسارے پورے کرنا بند کیے جائیںیا اُن کی تشکیلِ نو ایسے کی جائے کہ روزگار بھی برقرار رہے اور نقصانات بھی کم ہوں۔ کیوںنہ ان قرضوںکو رائٹ آف کر دیا جائے یا پھر ایک کارپوریشن بنے جو سارے اندرونی قرضوں کو نپٹانے کا بندوبست کرے۔ وفاقی و صوبائی محکموںاور تمام اداروں میںکٹوتی ہو اور اُن کے اخراجات کو کم از کم پچاس فیصد کم کیا جائے۔ بجٹ خسارے کو قرضوں سے نہیں، محاصلات بڑھا کر اور تمام زمینداروں اور سرمایہ داروں کی آمدنیوں پر 30 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے۔ دفاعی اخراجات کو منجمد کیا جائے اور کاسٹ بینیفٹ کے اُصول پہ اس کے بھاری بھر کم غیردفاعی حصوںکو چھانٹ دیا جائے۔ پیداواری لاگت کم کرتے ہوئے برآمدات کا دائرہ وسیع کیا جائے اور درآمدات پہ سختی اور بڑھا دی جائے۔ تمام اعلیٰسرکاری ملازمین کی بے شمار مراعات کو ختم کیا جائے۔ جس کا جو کام ہے وہی کرے، نہ کہ دھندوں کو بڑھایا جائے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ سیاسی معیشت کے پاور اسٹرکچر کو تبدیل کرتے ہوئے، عوامی شراکت اور حاکمیت اور معیشت میںسماجی شرکت کو تقویت دی جائے۔ اب یہ کرے تو کون؟ ہے کوئی مائی کا لعل یا عوامی جماعت!