غریب ملکوں کا استحصال بند ہونا چاہئے

September 26, 2020

پی ٹی آئی کی حکومت جو ملک میں بدعنوانی اور رشوت کے خاتمہ کیلئے ایک ایجنڈا لے کر برسر اقتدار آئی تھی اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نیب کے توسط سے اب تک متعدد میگا کیس کھول چکی ہے، اس ضمن میں وزیراعظم عمران کا یہ عندیہ بھی ہے کہ اسکے بعد نچلی سطح پر بھی کام کی رفتار تیز کی جائے گی جبکہ منی لانڈرنگ روکنے کیلئے قانون سازی سمیت ہر ممکن اقدامات بروئے کار لائے جارہے ہیں، اس حوالے سے جمعرات کے روز مالیاتی احتساب اور شفافیت سے متعلق اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ سطحی پینل سے اپنے خطاب میں ایف اے سی ٹی آئی پینل کی عبوری رپورٹ کا خیر مقدم کرتے اور اس کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر آواز اٹھائی ہے کہ وائٹ کالر جرائم کے ذریعے ہر سال ایک کھرب ڈالر غریب ملکوں سے امیر ملکوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ غریب ملکوں کا یہ عالمی استحصال بند ہونا چاہئے جس کیلئے امیر ملک غریب ممالک سے لوٹی ہوئی دولت واپس کریں اور ترقی پذیر ملکوں کو رقوم واپسی کے قوانین بننے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی نظام میں سرمائے کی غیرمنصفانہ تقسیم بڑا مسئلہ ہے، زیادہ تر دولت دنیا کے 26امیر ترین افراد کے ہاتھوں میں ہے جبکہ غربت عالمی امن کیلئے خطرہ ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر سال 600ارب ڈالر کا ٹیکس چوری کرتی ہیں۔ انہوں نے یہ بات بھی بجا طور پر کہی کہ پاکستان کی حکومت کرپشن کے تدارک کیلئے اندرونی طور پر اقدامات کر رہی ہے البتہ عالمی مالیاتی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ آواز ایک ایسے وقت پر اٹھائی ہے جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے اور آج وزیراعظم عمران خان خود بھی اجلاس سے خطاب کریں گے یقیناً یہ صورتحال اقوامِ عالم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو اس صورتحال کے پیدا ہونے میں بہت سے غریب ملکوں کے اپنے اندر پائی جانے والی بدعنوانی بھی بڑی حد تک کارفرما ہے اور جب اپنے ہی لوگ بیرونی سرمایہ کاروں کو کاروبار کی ترغیب دیتے وقت ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوں تو اس سے دوسرے کی آنکھیں چار ہونا منطقی بات ہے۔ وطنِ عزیز میں بھی سیاسی جماعتیں غیرملکی سرمایہ کاری اور منصوبوں اور صنعت و تجارت میں ناجائز منافع کمانے کے ایک دوسرے پر آئے روز الزامات لگاتی ہیں، ان معاملات کی رو سے پی ٹی آئی کی حکومت کو اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے اپنے متذکرہ خطاب میں یہ بات کہی ہے کہ ہمیں غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اس کی وجوہات کو بھی حل کرنا ہوگا۔ ملکی اور عالمی سطح پر مالیاتی پیداواری اور تجارت کے ڈھانچہ جات کو شفاف اور مسابقتی بنانا ہوگا، وزیراعظم کے ان خیالات کی روشنی میں یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ اس وقت اندرون ملک بہت سے نجی شعبوں میں مقامی صنعتوں کے ساتھ ساتھ غیرملکی کمپنیاں بھی کاروبار کر رہی ہیں اور صرف انہیں مخصوص مصنوعات بنانے یا درآمد کرنے کے حقوق حاصل ہیں جس سے مقابلے و مسابقت کا ماحول قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ کمپنیاں وطن عزیز میں سالہا سال سے کاروبار کر رہی ہیں اور اب تک کتنا ٹیکس بچایا گیا ان تمام حوالوں سے وزیراعظم عمران خان نے وطن عزیز کی صحیح ترجمانی کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کو کورونا سے پیدا شدہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان جیسے مسائل میں گھرے ملک کے بارے میں ہر پہلو سے منصفانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ مزید برآں امیر ملکوں سے لوٹی ہوئی دولت غریب ملکوں کو واپس کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کے بیان کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی ادارےکو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔