صحافت جمہوریت کیلئے ریڑھ کی ہڈی، آزاد نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ

September 29, 2020

اسلام آباد( نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ کے سینئر جج،مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسی ٰنے کہا ہے کہ پاکستان میں ابھی بھی صحافت آزاد نہیں ہے، آزاد صحافت ایک توانا جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

آزادی صحافت کے بغیر قوم بھٹک سکتی اور ملک کھو سکتے ہیں،یکطرفہ کہانی پیش کرنا، مخصوص پیغام نشر کرنا اور میڈیا کو قابو کرنا درست بات نہیں ہے‘آگاہی رکھنے والے شہری اور صحافی حکومت کی غلطیوں کی بہتر نشاندہی اور احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں،بااختیار افراد کو اگر یہ معلوم ہوجائے کہ انہیں عوام کی اسکروٹنی کا سامنا ہے تو وہ اپنے اختیار ات کابے جا استعمال کم سے کم کرتے ہیں۔

پاکستان فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 2017اور2018 میں 139نمبر تھا جو 2019میں 142نمبر پر پہنچ گیا تھا۔ برطانوی راج میں قائد اعظم محمد علی جناح نے پریس ایکٹ کے خلاف بات کی تھی اور اپنے فرائض انجام دینے والے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ انہوںنے ان خیالات کاظہار پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے عہدیداروں کے حلف لینے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آزاد صحافت حکومت کی غلط کاریوں اور بدعنوانیوںکو قوم پرآشکارکرتی ہے، صحافی دیگر عہدیداروں اور قانون سازوں سمیت سرکاری ملازمین کے برعکس قانونی طور پر حلف اٹھانے کے پابند نہیں ہیں اور ایسا کرناان کی ساکھ کا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری دعا ہے کہ آپ حلف کی پاسداری مضبوطی سے کریں اور دبا ئوسے ہٹ کر کھڑے رہیں۔ انہوں نے قرآن مجید کی آیات کے حوالے دیتے ہوئے کہا قرآن پاک میں بھی معلومات تک رسائی اور آزادی اظہار رائے کا ذکر موجود ہے۔ ہر شخص کو اپنی رائے قائم کرنے اور بولنے کا حق حاصل ہے، بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں صحافت آزاد نہیں ہے،اوران رپورٹوں کے مطابق آزاد صحافت میں پاکستان نچلے درجات میں ہے۔ پاکستان فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 2017اور2018 میں 139نمبر تھا جو 2019میں 142نمبر پر پہنچ گیا تھا۔

مجھ پر تنقید ہو تو میں برا نہیں مانتا ہوں ،میں نے فریڈم آف دی پریس کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ انہوںنے کہاکہ آئین کاآرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کا حق دیتا جبکہ عوامی مفاد کے تمام معاملات میں آئین ہی معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔ امریکہ کی سپریم کورٹ نے 19 سال قبل آزاد صحافت پر فیصلہ جاری کیا تھا ۔جب لوگ پریس کی آزادی کے لئے جنگ لڑتے ہیں اس کا مطلب ہوتا ہے وہ اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑتے ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ معاشرہ میں ناانصافی اوربدعنوانی کو سامنے لایا جائے۔انہوںنے کہا کہ18ویں آئینی ترمیم نے وفاقی اور صوبائی حکومت کے عوامی مفاد سے متعلق تمام معاملات پر معلومات تک رسائی کا حق دے کر آزادی اظہار کو مزید موثرکردیا ہے۔ انہوں نے غیر جانبدار میڈیا کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میں نے 1991میں’’ ʼسوچ کی آزادی جس سے ہم نفرت کرتے ہیں‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا، جس میں سرکاری ٹی وی کے نیوز بلیٹن کا حوالہ دیا گیا تھا جہاں اس وقت کے وزیرداخلہ نے اپوزیشن لیڈر پر نکتہ چینی کی تھی لیکن ٹی وی چینل نے اپوزیشن لیڈر کی تقریر نشر نہیں کی تھی،مقام افسوس ہے کہ پاکستان میں آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، انہوںنے کہاکہ قومی میڈیا پر یکطرفہ خبریں اور سلیکٹڈ پیغامات چلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔

انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اجمل میاں کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ʼیہ بدقسمتی کی بات ہے کہ براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور ٹیلی ویژن کارپوریشن اپنی ساکھ اور آزادانہ حیثیت ثابت نہیں کرپائے ۔

انہوں نے کہا کہ برطانوی راج میں قائد اعظم محمد علی جناح نے پریس ایکٹ کے خلاف بات کی تھی اور اپنے فرائض انجام دینے والے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔