جزائر کا تنازعہ

October 10, 2020

سندھ اب تک مرکزی حکومت کی طرف سے ایک سے زیادہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کا نشانہ بن چکا ہے،ان اقدامات کو سندھ کے سیاسی اور قانونی ماہرین سندھ کے خلاف جارحیت قرار دے رہے ہیں۔ اس سلسلے کا تازہ ترین اقدام مرکزی حکومت کی طرف سے سندھ اور بلوچستان کے جزیروں کو ان صوبوں کی تحویل سے نکال کر اپنی تحویل میں لینا ہے۔اس سلسلے میں دونوں صوبوں کے ان جزیروں کو اپنی تحویل میں لینے کے لئے ’’پاکستان آئی لینڈ ڈولپمنٹ اتھارٹی‘‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے۔یہ اتھارٹی ایک آرڈیننس کے ذریعے قائم کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ آرڈیننس تقریباً ایک ماہ پہلے جاری کیا گیا مگر اس وقت اسے خفیہ رکھا گیا۔ آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت چونکہ نہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہے اور نہ سینیٹ کا ، لہٰذا ملک کے صدر عارف علوی نے اس بات کی اجازت دی کہ یہ اتھارٹی قائم کرنے کے لئے آرڈیننس جاری کیا جائے ۔ایک ماہ تک اس آرڈیننس کو خفیہ رکھنے کے بعد دو تین دن پہلے اس کو ظاہر کیا گیا۔ سندھ کے قانونی ماہرین اور سیاسی رہنما آرڈیننس جاری کرنے کو ’’چوری اور سینہ زوری‘‘ کہہ رہے ہیں جبکہ کچھ دیگر حلقے اس آرڈیننس کے اجرا کو سندھ اور بلوچستان کے آئینی حقوق پر ڈاکہ قرار دے رہے ہیں۔ یہاں میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ آئین کے تحت اس وقت ملک میں وفاقی آئین نافذ ہے اور صوبوں کو خود مختاری حاصل ہے۔آئین میں ’’وفاق اور صوبوں کے حقوق کی واضح طور پر تشریح کی گئی ہے‘‘۔ اگر وفاقی حکومت ہی صوبوں کے آئینی حقوق کا احترام نہ کرے تو کیا ایسی حکومت کو وفاقی حکومت کہنا چاہئے؟۔ یہ بات خواہ مخواہ نہیں کہی جارہی ہے، موجودہ مرکزی حکومت کم سے کم صوبہ سندھ کے کئی آئینی حقوق کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ایسے متعدد اقدامات کرچکی ہے۔ اس سلسلے میں چند مثالیں دی جاسکتی ہیں‘ مثال کے طور پر آئین میں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) میں صوبوں کے حقوق کو تسلیم نہ کرتے ہوئے موجودہ مرکزی حکومت سندھ کے حصے کی ایک بڑی رقم کافی عرصے سے روکے بیٹھی ہے،اسی طرح آئین میں صاف طور پر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جس صوبے سے تیل اور گیس نکلے گا، یہ تیل اور گیس لینے کا پہلا حق اس صوبے کا ہے مگر ہو کیا رہا ہے،سندھ سے نکلنے والا تیل اور گیس سندھ کی ضرورتیں پوری کئے بغیر دوسرے صوبوں کو فراہم کیا جارہا ہے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق، مرکزی حکومت نے سندھ کو قدرتی گیس کی فراہمی بند کرکے 15 اکتوبر سے سندھ کے سی این جی اسٹیشنوں کے لئے فقط درآمد شدہ ایل این جی استعمال کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیاہے۔ واضح رہے کہ ایل این جی درآمد کی جاتی ہے اور کافی مہنگی ہے۔

علاوہ ازیں ایک تازہ ترین اطلاع کے مطابق مرکزی حکومت نے صوبوں کو میڈیکل یونیورسٹیوں اور کالجوں کے انٹری ٹیسٹ سے روک دیا ہے اور اب یہ اختیار پاکستان میڈیکل کمیشن کو، اس سلسلے میں ایک ایکٹ جاری کرکے، دیدیا گیا ہے۔ سندھ کے عوام کو اس بات پر حیرت ہے کہ تقریباً ایک ماہ پہلے جب سندھ کے جزیروں پر مرکز کا کنٹرول قائم ہونے کے سلسلے میں اطلاعات زیر گردش تھیں، نہ فقط سندھ کے وزیر زراعت نے ایسے کسی بھی اقدام کی مخالفت کی بلکہ خود سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک سے زائد بار اعلان کیا کہ حکومت سندھ کسی بھی صورت سندھ کے ان جزیروں پر مرکز کے کنٹرول کو قبول نہیں کرے گی مگر سندھ کے سیاسی حلقوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ اب جبکہ مرکز نے ان جزیروں کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے ایک آرڈیننس جاری کرکے ایک اتھارٹی بھی بنالی ہے ، یہ کالم لکھے جانے کے وقت تک حکومت سندھ کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا ۔تاہم پیپلز پارٹی کے دو اہم، سینئر رہنمائوں نے ضرور اس سلسلے میں سخت بیان جاری کئے ہیں،ان میں سے ایک پی پی کی سیکرٹری اطلاعات اور رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس غیر قانونی،غیر آئینی اور قابل مذمت ہے کیونکہ یہ براہ راست صوبائی حکومتوں کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے یہ جزیرے بہت قدیمی ہیں لہٰذا مرکز کو اس قسم کا ڈاکہ مارنے کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے جزیروں پر قبضے کی اس کوشش کو آئین کے آرٹیکل 172 کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کبھی سندھ کے انتظامی اختیارات پر تو کبھی سندھ کے اسپتالوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہا ہے،اسی طرح پی پی کی سینیٹر سسی پلیجو نے بھی سخت بیان جاری کرتے ہوئے اس آرڈیننس کے اجرا کو سندھ دشمنی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں ملکیت اور حد بندی کے سلسلے میں معاملات واضح ہیں لہٰذا آئین کے ساتھ اس قسم کے کھیل تماشے نہ کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت زیرو سے 12ناٹیکل میل تک سمندر میں بھی مالکانہ حقوق متعلقہ صوبے کے ہیں۔ (جاری ہے)