پولیس آفیسرز کا متاثر کُن، شفقت بھرا رویہ

October 18, 2020

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

میرے ساتھ پیش آنے والے یہ دو واقعات اگرچہ معمولی نوعیت کے ہیں، لیکن میرے ذہن پہ گہرا نقش چھوڑ گئے۔ ہوا یوں کہ چند ماہ قبل میں اپنے دوستوں امجد اور مطاہر کے ساتھ سُپرہائی وے پرواقع وادئ حسین قبرستان جارہا تھا۔ ہم تینوں ایک ہی بائیک پر سوار تھے اور بائیک امجد چلا رہا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا، سڑک بالکل سنسان تھی۔ اِکّا دُکّا گاڑیاں گزر رہی تھیں۔ ہائی وے پہ جانے سے پہلے بائیک کی کچھ ضروری مرمّت کروانی پڑی، جس میں اچھے خاصے پیسے لگ گئے، تو ہمارے پاس صرف چند سو روپے رہ گئے تھے۔ آدھے سے زیادہ سفر کٹ چکا تھا اور ہم سُبک رفتاری سے آگےبڑھ رہے تھے کہ اچانک دائیں طرف سے گزرنے والی ایک کار نے رُکنے کا اشارہ کیا۔

رُکے تو معلوم ہوا موٹروے پولیس والے ہیں۔ گاڑی سے ایک پولیس افسر اُترا، نہایت بُردباری اور دھیمے لہجے میں سب سے پہلے سوال کیا کہ کہاں جارہے ہو؟ ہم نے بتادیا وادئ حسین قبرستان جانا ہے۔ دوسرا سوال بھی بہت پیار اور تحمّل سے پوچھا گیا کہ ’’کیا کرتے ہو؟‘‘ یہاں بار بار لہجے کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ اس شعبے میں زیادہ تر لوگوں کا لہجہ خراب ہی ہوتا ہے، چند ایک لوگ ہی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔چوں کہ میرا سامنا پہلی بارایک منکسرالمزاج شخص سے ہوا، تو میں نے بھی انتہائی ادب سے کہا ’’پیشے کے اعتبار سے استاد ہوں۔‘‘ اس نے ہمارے ادارے کا نام پوچھا، وہ بھی ہم نے بتادیا۔

پھر اسنے بائیک کے کاغذات مانگے،جو ہمارے پاس نہیں تھے۔ صرف میرے پاس قومی شناختی کارڈ تھا، جو میں نے اُن کو دے دیا۔ شناختی کارڈ الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہنے لگا ’’آپ کو چالان بھرنا ہوگا۔‘‘اور یہ کہہ کراپنے ٹیبلیٹ پر باقی کارروائی پوری کرنے لگا۔ ایک بائیک پر تین افراد سوار تھے اور ہم میں سے کسی نے ہیلمٹ بھی نہیں پہنا ہوا تھا۔ ہم ہر طرح سے سزا کے مستحق تھے۔ پیسے بھی صرف چند سو روپے تھے، جو چالان بھرنے کے لیے ناکافی تھے،لہٰذا انتہائی بے چارگی اور بے بسی سے کہا کہ ’’سر! ہم چالان نہیں بھر پائیں گے، ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔‘‘ اب تک کی گفتگو میں پہلی بارہم نے اُن کے چہرے پہ برہمی دیکھی۔ وہ کہنے لگا ’’نہ آپ کے پاس پیسے ہیں،نہ بائیک کے کاغذات، نہ آپ میں سے کسی نے ہیلمٹ پہنا ہواہے، آپ لوگ شعبہ تدریس سے تعلق رکھتے ہیں،جب آپ کا یہ حال ہے، تو باقی جو کچھ کریں، کم ہیں۔‘‘ غرض ہماری جتنی کوتاہیاں تھیں، سب گنِوادیں۔ مجھے بے حد شرمندگی محسوس ہوئی کہ وہ اپنی جگہ ہر لحاظ سے صحیح، ہم ہی غلط تھے۔ پھروہ پولیس افسر گاڑی میںجاکر بیٹھ گیا، گویا ہمیں اشارہ تھا کہ اب ہم جاسکتے ہیں،لیکن ہم اپنا شناختی کارڈ لیے بِنا کیسے جاسکتے تھے، وہیں کھڑے رہے اور وہ گاڑی میں بیٹھ کر آگےچل دیئے۔ یہ چالان کٹنے سے زیادہ مشکل صورتِ حال تھی۔

ہم تینوں ہی سوچ بچار کررہے تھے، گاڑی ہماری نظروں سے دور ہوتی جا رہی تھی کہ جانے امجد کو کیا سوجھی، اُس نے ہمیں جلدی سے بائیک پربیٹھنے کو کہا اور آناً فاناً ہوا کی رفتار سے پولیس کی گاڑی کے پیچھے بائیک دوڑا دی۔ نظروں سے اوجھل ہوتی گاڑی تک پہنچنا شاید ممکن نہیںرہا تھا کہ اسی اثناء میںموٹر وے پولیس نے ایک دوسری گاڑی کو رکنے کا اشارہ کرکے سائیڈ پر روک کر اس گاڑی والے سے بھی سوال و جواب کا سلسلہ شروع کردیا۔ ہم بھی قریب پہنچ کر ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ اس کی نظر جب ہم پڑی، تو اللہ جانے وہ ہم سے تنگ آگیا تھا یا دل نرم پڑگیا تھا، یک دَم بِنا کچھ کہے اس نے میرا قومی شناختی کارڈ واپس دے دیا۔

پھر اُس گاڑی والے کو چھوڑ کر ہماری جانب متوجّہ ہوا اور کہنے لگا ’’میں آپ لوگوں کو صرف سبق سکھا رہا تھا کہ ٹریفک قوانین کی پابندی کتنی ضروری ہے۔‘‘ اُس کے بعد اس نے ہمیں ہائی وے پر ڈرائیونگ سے متعلق کچھ احتیاطی تدابیر اور قوانین سے آگاہ کیا اور ہاتھ مِلا کر مُسکراتے ہوئے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔ اس پولیس افسر کا شفقت بھرا رویّہ اور شخصیت مجھے بہت متاثر کرگئی، اس نے اپنی وردی کا رعب جھاڑا نہ کوئی تلخ کلامی کی،اور سب سے زیادہ متاثر کن بات یہ تھی کہ ٹیبلیٹ پر چالان کی پوری کارروائی مکمل درج کرنے کے باوجود کینسل کردی۔ اس وقت مجھے پہلی بار اُس پولیس والے پر رشک آیاکہ بااختیار ہونے کے باوجود بے اختیار نہیں ہوا۔

دوسرا واقعہ بھی قانون نافذ کرنے والوں کے متعلق ہے۔ہوا کچھ یوں کہ ہمیشہ کی طرح مَیں، امجد اور مطاہر ایک ساتھ بائیک پرکسی کام سے میٹرک بورڈ آفس گئے۔وہاں سے فارغ ہوکر ہم گھر کی جانب چل دیئے۔ مطاہر بائیک چلا رہا تھااور حال ہی میں گنجا ہوا تھا۔ ابھی کچھ ہی فاصلہ طے ہوا ہوگا کہ پیچھے سے بائیک پر سوار دو پولیس اہل کاروں نے انتہائی بدتمیزی سے آواز لگائی،”او گنجے! بائیک سائیڈ میں لگا۔‘‘ مطاہر ابھی ٹھیک طرح سے بائیک روک بھی نہ پایا تھا کہ پولیس والا لپک کر قریب آیا اور ایگنیشن سےچابی نکال کر اپنے قابو میںکرلی۔ ایک پولیس اہل کار کے منہ سے اس قسم کےالفاظ اور پھر چلتی بائیک سے چابی کھینچ لینا، یقیناً قانون کے منہ پر طمانچا ہی تھا۔

بہرحال، بائیک رُکتے ہی مَیں اور امجد نیچے اُترے اور ان سے پوچھا ’’جی فرمائیے، کیا مسئلہ ہے۔‘‘ تو ایک پولیس والا کہنے لگا ’’گاڑی پہ نمبر پلیٹ نہیں ہے، اس گنجے کو ادھر بلائو، وہ بائیک چلا رہا تھا۔“ گاڑی نئی ہونے کی وجہ سے رجسٹریشن کے لیے اپلائی کیا ہوا تھا، اس لیے نمبر پلیٹ نصب نہیں تھی۔ پولیس کی بدتمیزی پر امجد نے بہت ٹھوس لہجے میں کہا ’’آپ یہ بات آرام سے بھی کرسکتے تھے۔ یہ کیا طریقہ ہے، چلتی گاڑی سے چابی نکالنے کا، آپ کا کام عوام کو حادثات سے بچانا ہے، مزید حادثات کا شکار کرنا نہیں، نمبر پلیٹ کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے، جیسے ہی ملے گی، لگوالیں گے۔‘‘ اتنی جامع اور مدلّل بات سُننے کے باوجود دونوں اہل کار بدتمیزی سے باز نہیں آئے۔

شاید اُنھیں بات سمجھ نہیں آئی۔ انھوں نے ہمیں ڈرانا دھمکانا شروع کردیا، اس اثناء میںکچھ لوگ بھی جمع ہوگئے، تو پولیس والے ہمیں تھانے لے جانے کی دھمکی دینے لگے۔ ہمیں تھانے چلنے میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ امجد کا چھوٹا بھائی پولیس میں تھا، اُس نے ہمیں بتایا تھا کہ پولیس والے تھانے لے جانے کی بات کریں، تو چلے جایا کرو، ڈرنے کی کوئی بات نہیں ، کیوں کہ سڑک پر تو یہ دھڑلّے سے رشوت طلب کرتے ہیں، لیکن تھانے لے جا کر اپنے پیر پہ خودکلہاڑی مارلیتے ہیں۔بہرحال،ہم نے ان سے کہا کہ ’’چلیں تھانے۔“ توبجائے ہمیں ساتھ لے کر جانے کے، دوسرا اہل کار ہماری بائیک پر چڑھبیٹھا، چابی تو اُسی کے پاس تھی، زَن سے بائیک اسٹارٹ کی اورہمیںتیز تپتی دھوپ اور بیچ سڑک پرلاوارث چھوڑکر یہ جا، وہ جا۔یہ بھی نہیںبتایا کہ کس تھانےجانا ہے۔

ہم تھانے کس طرح پہنچے، یہ الگ ہی داستان ہے،۔تھانے پہنچے، توپارکنگ ایریا میں ہماری بائیک نظر آگئی۔ دونوں پولیس اہل کار بھی وہاں موجود تھے۔ ہم جب ہانپتے کانپتے ڈیوٹی روم میں گئے تو وہاں موجود افسر نے ہمیںبڑی عزّت سے کرسی پر بٹھایا اور تحمّل سے ہماری بات سننے کے بعدکہا کہ ’’لیکن ہمارے اہل کاروں نے تو بتایا ہے کہ آپ تینوں ایک ہی بائیک پربغیر نمبر پلیٹ گھوم رہے تھے، آپ خود بتائیں، غلطی کس کی ہے؟‘‘ ہم نے اپنی غلطی تسلیم کرتےہوئے کہا ’’جناب!ہم مانتے ہیں کہ غلطی ہماری ہے، لیکن کیاچلتی بائیک سے چابی نکالنا ، گالی دینا اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرنا ، محکمہ پولیس کو بدنام کرنے کا باعث نہیں بنتا۔

آپ جس طرح اخلاق اور تحمّل سے ہماری بات سن رہے ہیں، اگر یہ بھی ہم سے اسی طرح بات کرتے تو یقیناً یہ نوبت نہ آتی،ہم خود نظم و ضبط پر عمل کرنے والے لوگ ہیں اور ہمارا ظاہری حلیہ بھی ایسا نہیں کہ جس سے شبہ ہو کہ ہم غلط سرگرمیوں میں ملوثہوسکتے ہیں۔اُن دونوں پولیس اہل کاروں کا ہتک آمیز رویّہ قابل ِ مذمت اور بھری دوپہر میں ہمیں سڑک پہ چھوڑ آنا، سفّاکیت کی جیتی جاگتی مثال ہے،لیکن آپ نے بہت محبت سے ہماری بات سُنی، آپ جو جرمانہ عاید کریںگے،ہم دینے کو تیار ہیں۔‘‘ ہماری مکمل رُوداد سننے کے بعد اس پولیس افسر نے صرف اتنا کہا’’ٹھیک ہے بیٹا! آپ لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی، کوئی جرمانہ عاید نہیںکیا جارہا ہے، لیکن بس آئندہ خیال رکھیے گا۔‘‘

اگرچہ مندرجہ بالا دونوں واقعات معمولی نوعیت کے ہیں،لیکن میرے ذہن پہ اپنا گہرا نقش چھوڑ گئے،مجھے ہائی وے پولیس افسر اور تھانے کے ڈیوٹی افسر دونوں نےبہت متاثر کیا کہ اب بھی دنیا میں کچھ لوگ ایسے موجود ہیں، جو اپنے فرائض اور ذمّے داریاں نبھانے میں اپنی مثال آپ ہیں، لیکن جب اسی شعبے سے وابستہ نچلے درجے کے افسران یا اہل کاروں کا ناروا رویّہ، گٹکے پان سے رنگے دانت اور گالیوں بھری زبان والا رُوپ سامنے آتا ہے، تو کچھ دیر کے لیے ذہن بالکل ہی مائوف ہوجاتا ہے۔ (محسن احمد ، سیکٹر فائیو جی، نیو کراچی، کراچی)

سُنیے…آپ سےکچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر،سنڈے میگزین صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔