پہچان

October 25, 2020

آج اخبارات کی ورق گردانی کرتے اک عجیب سی خبر پہ نظر پڑی کہ آج کے پیرو میں واقع قدیم ’’انکا‘‘ تہذیب کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہاں دیوتائوں کو خوش کرنے کے لئے نہ صرف جانوروں کو زندہ دفن کرنے کا رواج تھا بلکہ چھوٹے بچوں کو بھی زندہ بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا۔

حال ہی میں اونٹ نما مقامی جانور ’’لاما‘‘ کی باقیات ملی ہیں جن کے بارے ماہرین کا اندازہ ہے کہ انہیں زندہ دفن کیا گیا تھا۔ کینیڈا کی یونیورسٹی آف کیلگری کی تحقیق کے مطابق سفید لاما کی 5 لاشیں ایک ہی جگہ سے دریافت ہوئی ہیں جن پر کسی زخم، چوٹ، کاٹے جانے کے نشانات نہیں۔ جنوبی امریکہ میں میکسیکو اور پیرو تک پھلی ہوئی ’’انکا‘‘ تہذیب کبھی بہت ترقی یافتہ سمجھی جاتی تھی۔

خبر تو ختم ہوگئی لیکن میں چشم تصور سے انسانی تہذیبوں کا سفر دیکھنے لگا۔ انسان کہاں سے شروع ہوا اور کہاں سے ہوتا ہوا کہاں آپہنچا لیکن چند بنیادی مخصوص جبلتوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

غلبہ کی مجنونانہ خواہش سے لے کر ہوس اور انتقام تک نجانے کتنی بلائیں آدمی نامی اس بلا کو چمٹی ہوئی ہیں جن سے پیچھا چھڑانے میں وہ بری طرح ناکام ہے۔ ان بلائوں نے ہزاروں لاکھوں سال کے سفر میں صرف شکلیں اور نام ہی تبدیل کئے ہیں۔

اب تک سینکڑوں برباد، پامال، مردہ، گمشدہ تہذیبیں دریافت کی جاچکی ہیں، کوئی لاوے، کوئی ریت، کوئی مٹی، کوئی پتھروں، کوئی برف کے تلے گہری نیند سو رہی تھی اور ﷲ جانے مزید کتنی مر چکی تہذیبیں ابھی تک اپنی دریافت کی منتظر ہیں۔ دنیا ان سے ’’علم‘‘ تو حاصل کرتی ہے لیکن عبرت حاصل کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔

ہیٹرا (الحضر)، ہندوستان کا عظیم پاٹلی پترا (آج کا پٹنہ سمجھ لیں)، اولمپیا، لگڈونم، نارا، پومپائی، پاگن، حضرت ابراہیم کا شہر ولادت ’’ار‘‘، میسوپوٹیمیا کا بھولا بسراماری، ہمارا ہڑپہ،اوگارٹ، بابل جسے انگریزی میں BABYLON کہتے ہیں، سمندر ی تہذیب کارتھیج اور نجانے کیا کیا، کیسی کیسی سولائزیشنز تھیں جو خاک و خواب میں تبدیل ہو کر رہ گئیں۔

سائنس دانوں کے نزدیک اس زمین کی عمر تقریباً ساڑھے چار ارب برسوں کے قریب ہے۔ تمام آسمانی مذاہب کا کامل اتفاق ہے کہ حضرت آدم انسانوں کے جداعلیٰ ہی نہیں پیغمبر بھی تھے جن کے ایک بیٹے نے ان کے دوسرے بیٹے یعنی اپنے ہی بھائی کو قتل کردیا تو تب سے شروع ہونے والا یہ لہو رنگ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

بھائی مسلسل بھائیوں کے قتل عام میں مصروف ہیں اور قتال کو ہمیشہ بہت ہی عمدہ لفظوں سے پکارا جاتا رہا ہے اور یہ سب کچھ ’’پردہ گرنے تک‘‘ یونہی جاری رہے گا۔ صرف قیامت ہی ان قیامتوں کا کام تمام کرے گی۔

انسانی تہذیب کی عمر تو صرف 6000 برس پرانی ہے جبکہ آثاریات کے علم کی عمر صرف دو، سوا دو سوبرس ہے اس لئے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کیسی کیسی تہذیبیں کیسے کیسے دبیز پردوں میں پنہاں ہیں۔ ہم پاکستانی تو ابھی تک ’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘ کی تکون میں ہی پھڑپھڑا رہے ہیں۔

اس لئے ’’آثاریات‘‘ جیسے ’’فالتو فضول‘‘ علوم کی عیاشی افورڈ کرنے کا تصور ہی نہیں کرسکتے ورنہ آئے روز اخبارات کے کونوں کھدروں میں ایسی بہت سی خبریں توجہ کی طلب گار ہوتی ہیں کہ فلاں فلاں قصبہ سے انتہائی قدیم سکے، برتن، آلات، ملبے دریافت ہوئے لیکن ہمارے لئے یہ سب سکریپ اور کچرا ہے۔

ظلم کی انتہا کہ اس ملک کے حکمران اپنے ہی ملک کے قدیم ترین نوادرات بھی سمگل کرکے بیرون ملک لے گئے تاکہ وہاں اپنے محلات کی آرائش و زیبائش کا کام لے سکیں۔یہ وہ بدبخت تھے جنہوں نے اس دھرتی کا ’’حال‘‘ تو کیا ’’ماضی‘‘ بھی چرانے سے دریغ نہیں کیا۔ چھوٹی موٹی خبریں بھی شائع ہوتی رہیں لیکن حکام کیا، عوام تک کے کانوں پر بھی کبھی جوں تک نہ رینگی کہ اپنی تو ترجیحات ہی نرالی ہیں۔

آثار قدیمہ تو بہت قدیم ہوتے ہیں، ہم سے تو دو، چار، پانچ سو سال پرانی عمارتوں اور دیگر نشانیوں کی دیکھ بھال بھی نہیں ہو رہی۔ ان کی نام نہاد بحالی کے لئے مختص رقمیں بھی زیادہ تر خورد برد کرلی جاتی ہیں۔ انتہا یہ کہ وہ کام بھی نہیں کرسکتے جن پر نہ پیسہ لگتا ہے، نہ انرجی ،نہ وقت اور پلاننگ اور یہ مکروہ کام ہے شہروں سے لے کر سڑکوں تک کے نام تبدیل کرنا۔

نواب شاہ کو بے نظیر آباد اور لائل پور کو فیصل آباد بنانے کے لئے جس عقل، شعور اور ظرف کی ضرورت ہے، وہی ہمارے لئے سرمایہ افتخار ہے اور یہی ہماری اصل پہچان بھی۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)