قلعہ التت... وادی ہنزہ کا تاریخی و تعمیراتی شاہکار

November 08, 2020

شہروں میںرہنے والوں کو شمالی علاقہ جات بالخصوص گلگت بلتستان کی خوبصورتی، پُرفضا مقامات، سکون، طرزِ زندگی اور جغرافیائی خصوصیات ورطۂ حیرت میںڈال دیتی ہیں۔ وادی ہنزہ کا ذکر کریں تو یہاں کے اصل باشندے بروشو کہلاتے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ سکندر اعظم کے لشکر میں شامل یونانی فوجیوں کی اولادیں ہیں۔ ان کے آبا و اجداد روح کی عبادت کرنے والے یعنی شامانیت مذہب کے پیروکار تھے۔

تاہم، 15ویں صدی میں اس علاقے میں اسلام متعارف کروایا گیا اور 1830ء کے قریب بہت سے لوگ اسلام قبول کرچکے تھے۔ التت، وادی ہنزہ کا ایک قدیم گاؤں ہے، جو اپنے قلعے کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ التت کے قدیم لوگوں کا تعلق سلطنت فارس کے ترقی پذیر اور زراعت سے وابستہ ترک قبیلے’ہن‘ سے تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس بستی کا پرانا نام ہنوکوشل تھا، جس کا مطلب ہنوں کا گاؤں ہے۔

گلگت بلتستان کا قلعہ التت، وادی ہنزہ میں بالائی کریم آباد پر ایک قدیم ترین قلعہ ہے۔ یہ دراصل ریاست ہنزہ کے آبائی حکمرانوں کا گھر تھا، جن کے نام کے ساتھ میر لگایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں کئی چھوٹی اور خودمختار ریاستیں موجود تھیں، جن میں سے دو ہنزہ اور نگر تھیں۔ یہ دونوں ریاستیں روایتی طور پر ایک دوسرے کی مخالف اور دریائے ہنزہ پر آمنے سامنے واقع تھیں۔ قلعہ التت کو ہنزہ کے میروں (شاہی خاندان) نے گیارہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا تاکہ جڑواں ریاست ’نگر‘ کے میروں کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکیں۔

علاقائی روایات کے مطابق قلعہ التت کو تعمیر کرنے والے کاریگر بلتستان سے آئے تھے۔ اس قلعے میں لداخ اور تبتی فن تعمیر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ 900سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود اس قلعے نے اب تک اپنی شان برقرار رکھی ہوئی ہے۔ تاریخ میں قلعہ التت نہ صرف کئی حملوں کو روکنے میں کامیاب رہا بلکہ زلزلوں میں بھی اس نے اپنا وجود قائم رکھا۔ یہ خصوصیت اسے اپنے دور کی حیرت انگیز اور فن تعمیر کا شاہکار بناتی ہے۔

قلعہ دریائے ہنزہ سے ایک ہزار فٹ کی بلندی پر اونچی پہاڑی پر واقع ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے ایک چٹان کے اوپر چھ مختلف درجوں میں تعمیر کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اسے محل کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا لیکن بعد میں ’شکاری مینار‘ تعمیر کرکے اسے قلعے میں تبدیل کر دیا گیا۔ قلعے کے اس واحد مینار کو خصوصی طور پر جنگ کے دوران علاقے کی نگرانی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔

اتنی اونچائی سے ارد گرد موجود تمام پہاڑوں، چشموں، جنگلوں اور نہروں پر آسانی سے نظر رکھی جاسکتی تھی۔ مقامی باشندوں کے مطابق شکاری مینار سے سزائے موت کے قیدیوں کو بھی نیچے پھینکا جاتا تھا۔ مینار کے دروازے کی اونچائی محض پانچ فٹ رکھی گئی تھی تاکہ حملہ آور فوجیوں کو جھک کر اندر داخل ہونا پڑے اور دفاعی سپاہی موقع سے فائدہ اٹھاکر بآسانی ان کا سر قلم کر سکیں۔

ابتدائی دنوں میں یہ قلعہ اطراف میں آبادی اور تاجروں سے گھرا ہوا تھا۔ تاجر قدیم شاہراہ ریشم کے راستے چین سے داخل ہوتے اور دنیا بھر سے اپنا مال یہاں لاتے تھے جس کی وجہ سے یہ جلد ہی خطے کا ثقافتی مرکز بن گیا۔ التت قلعے کے شکاری مینار پر چڑھ کر نیچے دیکھنے اور قلعے میں گھومتے ہوئے قدیم طرزِ زندگی کے آثار اب بھی نظر آتے ہیں۔ اس عظیم قلعہ بند عمارت کے فن تعمیر کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ کیسے اس دور میں اعلیٰ درجے کی انجینئرنگ کی گئی تھی۔ اس کے در و دیوار اور اندر موجود ایک ایک شے شاہانہ دور کی اَن مٹ یادیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔

تقسیم ہند کے بعد بھی ہنزہ ایک شاہی ریاست کے طور پر قائم رہی لیکن یہ سلسلہ 1972ء تک چل سکا۔ بعد میںالتت قلعے کی بحالی کا کام کیا گیا اور2007ءسے یہ میوزیم کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ پرانے گاؤں اور ارد گرد کی ترقی اور تزئین و آرائش بھی کی گئی۔ قلعے کے تحفظ اور بحالی کا کام ڈھانچے کے نقائص کی درستی، موجودہ دیواروں کا استحکام اور مرمت، چھتوں کا بدلنا، لکڑیوں کے خراب ہونے کا حل نکالنا اور مناسب روشنی کی فراہمی پر مرکوز رہا۔

دروازوں، کھڑکیوں اور سیڑھیوں پر بڑی مہارت سے لکڑی کا کام کر کے انہیں بالکل پرانی حالت میں بحال کیا گیا۔ لکڑی کے چھوٹے کمرے اور حصوں پرعمدہ کشیدہ کاری کی گئی۔ قلعے میں دیدہ زیب کام کی باقیات اب بھی موجود ہیں، یوں لگتا ہے کہ وہ گویا ماضی کی د استان سنا رہی ہوں۔

شاہی خاندان کے استعمال شدہ برتن بھی نمائش کے لیے پیش کیے گئے ہیں جبکہ ان کے لباس، بادشاہ کا دربار، شاہی باورچی خانہ اور زندان سمیت ہر شے اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔

قلعہ التت کا سب سے خوبصورت مقام رائل گارڈن ہے، جہاں کی تروتازگی اور ہر سو پھیلی ہریالی آج بھی ویسی ہی ہے۔ التت قلعہ ایک اہم سیاحتی مقام ہے، جسے2007ء سے عوام کے لیے کھولا گیا۔ وادی ہنزہ کے نظارے دیکھنے والے سیاح یہاں آکر یقیناً اس خوبصورتی کے ہمیشہ گرویدہ رہتے ہوں گے۔ ہنزہ کے اس قدیم قلعے کو ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لئے 2011ء کا یونیسکو ایشیا پیسفک ایوارڈ دیا گیا تھا۔