کاٹن کی پیداوار میں مسلسل کمی

November 16, 2020

کافی عرصے سے میں نے زراعت کے سب سے اہم سیکٹر ٹیکسٹائل پر کالم تحریر نہیں کیا لیکن کاٹن کی پیداوار میں مسلسل کمی اور کاشت کے رقبے کی گنے کی کاشت میں منتقلی کے باعث ہماری کاٹن کی 14ملین بیلز کی پیداوار کم ہوکر 8ملین بیلز سالانہ ہوجانے پر اس اہم موضوع پر لکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ پاکستان 80کی دہائی میں کاٹن کی پیداوار میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک تھا، 90کی دہائی میں تیسرا اور پھر کچھ سال پہلے چوتھا بڑا ملک بن گیا تھا لیکن کاٹن کی پیداوار میں مسلسل کمی کے باعث آج پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر آگیا ہے جبکہ پہلے نمبر پر چین، دوسرے پر بھارت، تیسرے پر امریکہ اور چوتھے پر برازیل ہیں۔ پاکستان میں کاٹن کی پیداوار میں تنزلی کی ایک بڑی وجہ کاٹن سیڈز میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (R&D)کا نہ ہونا، جعلی اور غیر معیاری سیڈز اور ادویات کا استعمال ہے۔ اِس کے علاوہ جننگ کے دوران پاکستانی کاٹن میں آلودگی مثلاً پولی تھین، کھاد اور ہڈیاں وغیرہ شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے کاٹن یارن اور ٹیکسٹائل کی دیگر مصنوعات کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں کم ہوجاتی ہیں کیونکہ عالمی سطح پر کاٹن میں زیادہ سے زیادہ 2فیصد آلودگی کی اجازت ہے جبکہ پاکستان کی کاٹن میں آلودگی کی شرح 6فیصد ہے جس سے ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔ میں نے وزیراعظم کے مشیر برائے ٹیکسٹائل کی حیثیت سے اپٹما کے ساتھ کاٹن میں آلودگی پر آگاہی مہم شروع کی تھی اور کم آلودگی والی کاٹن کی قیمتوں پر پریمیم دیا گیا تھا لیکن اس شعبہ سے وابستہ غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی وجہ سے یہ مہم زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔

ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ کاٹن کی فی ایکڑ پیداوار ہے جو خطے میں بھارت کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ بھارت نے بی ٹی کاٹن کے معیاری بیج استعمال کرکے اپنی کاٹن کی پیداوار 18ملین بیلز سے بڑھاکر 30ملین بیلز کرلی ہے اور پاکستان،پاک بھارت تجارت بند ہونے کی وجہ سے آج برازیل اور دیگر ممالک سے 2ملین ڈالرز سالانہ کی کاٹن امپورٹ کررہا ہے جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں کاٹن کی قیمت 9700روپے فی من کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔ کاٹن کی پیداوار میں کمی کی دوسری بڑی وجہ شوگر ملز مالکان کے دبائو اور اثر و رسوخ سے کاٹن کی کاشت کے رقبے کا گنے کی کاشت میں منتقل ہونا ہے جس کی وجہ سے کاٹن کی کاشت کا رقبہ 3.4ملین ہیکڑ سے کم ہوکر 2.5ملین ہیکڑ رہ گیا ہے اور اِس سال کاٹن کی پیداوار میں 30فیصد کمی سے صرف 7.5سے 8ملین بیلز پیداوار متوقع ہے جو ہماری ٹیکسٹائل صنعت کی ضرورت کا صرف 60فیصد بنتی ہیںس۔ کاٹن کی پیداوار میں مسلسل کمی سے ملک کو جی ڈی پی میں سالانہ 8ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ انٹرنیشنل کاٹن ایڈوائزری کمیٹی (ICAC) کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 4ممالک امریکہ، بھارت، چین اور برازیل دنیا کی کاٹن کا 73فیصد پیدا کررہے ہیں جس میں بھارت 25فیصد کے ساتھ پہلے، چین 23فیصد کے ساتھ دوسرے، امریکہ 15فیصد کے ساتھ تیسرے اور برازیل 10فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019-20ءمیں دنیا میں کاٹن کی پیداوار 22.9ملین ٹن رہے گی جبکہ 2020-21ءمیں 25ملین ٹن پیداوار متوقع ہے اور بھارت 12ملین ہیکڑ رقبے پر کاٹن کی کاشت کے ساتھ دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا جبکہ پاکستان میں کاٹن کی پیداوار 15ملین بیلز سے کم ہوکر 7سے 8ملین بیلز رہ جائے گی اور ہمیں ہر سال تقریباً 4سے 5ملین بیلز کاٹن امپورٹ کرنا پڑے گی جس سے ہماری ٹیکسٹائل صنعت بری طرح متاثر ہوگی کیونکہ کاٹن ہماری ٹیکسٹائل صنعت کا خام مال ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں کاٹن کی امپورٹ سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر پر ناقابل برداشت بوجھ پڑرہا ہے بلکہ درآمد شدہ کاٹن سے ہماری پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے جو بین الاقوامی منڈی میں ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کو غیرمسابقتی بنارہا ہے جس سے ہماری13ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں کمی آسکتی ہے۔ ہماری ٹیکسٹائل صنعت کا 65فیصد انحصار کاٹن یارن پر ہے جبکہ پاکستان میں پولیسٹر یارن کا ٹیکسٹائل مصنوعات میں استعمال تقریباً 35فیصد ہے۔ ہمیں پولیسٹر یارن کے استعمال کو بڑھاکر کاٹن یارن پر انحصار کم کرنا ہوگا۔ دنیا میں ٹیکسٹائل مصنوعات بنانے والے ممالک میں کاٹن یارن اور پولیسٹر یارن کا استعمال 50، 50فیصد ہے۔ گلوبل ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں پاکستان کا حصہ صرف 2فیصد ہے جبکہ بھارت کا حصہ 4فیصد اور بنگلہ دیش کا 7فیصد ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے ہمیں اپنے ایکسپورٹرز کی مالی مشکلات دور کرنا ہوں گی اور بالخصوص ایف بی آر کو چھوٹے کمرشل ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ترجیحی بنیادوں پر ادائیگی کرنا ہوگی تاکہ وہ ان نئے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کاٹن پر بننے والی ٹاسک فورس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے خام مال کاٹن کی پیداوار کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور زیادہ پیداواری سیڈز متعارف کرائے اور سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر کاٹن کے رقبے کو گنے کی کاشت کیلئے استعمال ہونے کے عمل کو فوری روکا جائے تاکہ کاٹن کی پیداوار کو مسلسل کم ہونے سے بچایا جاسکے۔میری حکومت کو تجویز ہے کہ ملکی زرعی سیکٹر، جسے کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا جارہا ہے، کو بحال کرکے کاٹن اور دیگر اہم فصلوں کی پیداوار کو بڑھایا جائے تاکہ ملک زرعی اجناس میں خود کفیل ہوسکے۔