علامہ خادم حسین رضوی نے2017 میں تحریک لبیک کی بنیاد رکھی،2018 کے انتخابات میں سندھ اسمبلی میں نشست لینے میں کامیاب ہوئے

November 20, 2020

لاہور (عمران احسان ) علامہ خادم حسین رضوی کو چند برس پہلے تک کوئی نہیں جانتا تھا، علامہ خادم حسین رضوی جب ممتاز قادری کے حق میں کھل کر بولے ، تنبیہ کے باوجود وہ نہ رکے تو محکمہ اوقاف نے ملازمت سے فارغ کر دیا،جس کے بعد انھوں نے ستمبر 2017 میں تحریک لبیک کی بنیاد رکھی اور اسی برس لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ 120 لاہور کے ضمنی انتخاب میں سات ہزار ووٹ حاصل کر کے سیاسی پنڈتوں کوورطہ حیرت میں ڈال دیا، وہ پہلی بار میڈیا کی نظروں میں اس وقت آئے جب انھوں نے سلمان تاثیر کے قاتل کی سزائے موت کی مخالفت کاا علان کیا ، اس واقعہ کے بعد انکی دینی زندگی میں سیاست کا رنگ ایسا چڑھا جو آخری وقت تک نہ اترا، جنوری 2017 میں بھی توہین مذہب کے قانون کے حق میں انھوں نے لاہور میں ریلی نکالی ، پولیس نےانھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ۔ انہیں اب بھی پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا تھا۔ تحریک لبیک کے رہنماؤں نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پرفیض آباد پر بیس روز تک دھرنا دیا ، انھیں دھرنے میں سنی تحریک کی مکمل حمایت حاصل رہی ،جس کے اختتام پر حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان 6 نکاتی معاہدہ طے پایا تھا۔اس واقعے کے بعد تحریک لبیک پاکستان کا حقیقی جنم ہوا ور یہ مذہبی جماعت پاکستانی سیاست میں اہمیت اختیار کر گئی ۔2017 میں ہی انتخابی اصلاحات کے باعث انتخابی فارم میں ختم نبوت حلف نامے میں ترمیم پر تحریک لبیک متحرک ہوئی اور ایک بار پھر دھرنا دیا۔تحریک لبیک پاکستان نے 2018 کے انتخابات میں حصہ لیا اور سندھ اسمبلی میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئی،جب سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے ایک مقدمے سے بری کیا تو ٹی ایل پی نے ملک بھر میں دھرنے دے کر نظام زندگی مفلوج کر دیا،دھرنوں کے دوران علامہ خادم رضوی نے پرجوش تقاریر کیں اور کارکنوں اور ہمدروں کو احتجاج پر اکسایا، جس کے بعد انھیں گرفتار کرتے ہوئے ان کا میڈیا بلیک آؤٹ کر دیا گیا تھا،علامہ خادم رضوی و دیگران پر ہنگامہ آرائی، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے اور مار پیٹ کا مقدمہ راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ایک سال سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہا، عدالت نےتحریک لبیک پاکستان کے 86 کارکنوں کو 2018 میں پرتشدد مظاہروں میں حصہ لینے پر 55، 55 سال قید کی سزائیں سنائی تھیں ۔سزا پانے والوں میں پارٹی کے سربراہ علامہ خادم رضوی کے بھائی علامہ امیر حسین رضوی بھی شا مل تھے۔مجرموں پر مجموعی طور پر ایک کروڑ 29 لاکھ 25 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا تھا جسکی عدم ادائیگی پر مزید 146 سال سزا سنائی گئی ۔ عدالتی فیصلے کے مجرموں کو اٹک جیل بھجوا دیا گیا تھا،مئی، 2019 میں خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کو دو ساتھیوں سمیت جیل سے رہا کردیا گیا، جس کے بعد انھوں نے دوبارہ پرتشدد راستہ نہیں اپنایا، نومبر 2020 میں ایک مرتبہ پھر ان کی جماعت کے کارکنوں نے اسی مقام پر دھرنا دیا ، جو حکومت کے ساتھ ایک بار پھرمعاہدے کے نتیجے میں ختم ہوا،انکے سبھی دھرنوں کے بارے میں یہ زبان زد عام ہوا کہ کوئی انہیں فنڈنگ کرتا ہے۔