کشمور واقعہ۔ ظلم و بربریت کی انتہا

November 25, 2020

کچھ سال قبل پنجاب کے علاقے قصور میں 7سالہ بچی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے اندوہناک واقعہ کے زخم ابھی بھرے بھی نہ تھے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اور اُس کی 4سالہ بچی کے ساتھ کشمور میں ہونے والی جنسی درندگی کے واقعہ نے لوگوں کے دل دہلا دیے۔ مجھ سمیت جس شخص نے بھی متاثرہ بچی کی وڈیو دیکھی، اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ اِس اندوہناک واقعہ کے بعد زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ننھی علیشا NICHکراچی میں زیر علاج ہے۔ میرے دوست معروف ایڈووکیٹ شاہد سومرو، جو مظلوم خاتون کی طرف سے اِس کیس کی پیروی کررہے ہیں، نے جب مجھے یہ اطلاع دی کہ بچی کی جان خطرے سے باہر ہے اور اُسے ہوش آگیا ہے تو میں ’’میک اے وش‘‘ کے کارکنوں کے ہمراہ ننھی علیشا کی عیادت کیلئے گلدستہ اور دیگر تحائف موبائل فون و ٹیبلٹ اور ڈول ہائوس لے کر اسپتال پہنچا جہاں بچی کو دیکھ کر شدید صدمہ ہوا جس کے ننھے ہاتھوں اور ناک میں ابھی تک نلکیاں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے جب بچی کا ننھا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تو یہ سوچ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے کہ کیا کوئی 4سالہ معصوم بچی کے ساتھ بھی اتنی بے رحمی کرسکتا ہے؟ میرے پکارنے پر بچی نے کچھ لمحوں کیلئے آنکھیں کھولیں اور پھر بند کرلیں۔ ہم نے اُس کو بتایا کہ ہم سب اُس سے بے حد پیار کرتے ہیں اور اس کیلئے تحفے لے کر آئے ہیں۔ اس موقع پر میں نے بچی کی والدہ تبسم سے اپنا اور ’’میک اے وش‘‘ پاکستان کا تعارف کرایا کہ میرا ادارہ بچوں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتا ہے۔ تبسم نے بتایا کہ علیشا کو ٹیبلٹ اور موبائل فون بہت پسند ہے جس کا وہ اکثر مجھ سے مطالبہ کرتی تھی۔

بعد ازاں معروف چائلڈ اسپیشلسٹ NICHکے ڈائریکٹر پروفیسر سید جمال رضا، جن کی نگرانی میں بچی کا علاج جاری ہے، کے کمرے میں تبسم نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کراچی کے ایک سرکاری اسپتال میں رہتی تھی جہاں درندہ صفت مجرم رفیق اُسے 40ہزار روپے کی ملازمت کا جھانسہ دے کر کشمور لے آیا مگر اُس نے ملازمت دلوانے کے بجائے اُسے کئی روز تک ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر 30ہزار روپے میں ایک شخص خیر اللہ بگٹی کو فروخت کردیا جبکہ میری بچی کو یرغمال بنالیا۔ خاتون کے بقول خیر اللہ بگٹی اور اُس کے ساتھی کئی روز تک اُسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے مگر ایک روز وہ اُن ظالموں کے چنگل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی اور کشمور تھانے پہنچی جہاں اُس کی ملاقات اے ایس آئی محمد بخش سے ہوئی جسے اُس نے اپنی آپ بیتی سنائی۔ محمد بخش اُسے اپنے گھر لے آیا اور وعدہ کیا کہ وہ اس کی بچی کو ضرور بازیاب کروائے گا۔ تبسم نے بتایا کہ کچھ روز بعد جب بچی کے اغواکار سے فون پر رابطہ ہوا تو اُس نے اِس شرط پر بچی واپس کرنے کا کہا کہ وہ اُس کیلئے کسی دوسری لڑکی کا انتظام کرے۔ اگلے روز محمد بخش نے منصوبے کے تحت اغوا کار سے اپنی بیٹی کی بات کرائی اور ملاقات کی جگہ طے کی گئی۔ خاتون نے بتایا کہ مقررہ جگہ پر جب اغوا کار، محمد بخش کی بیٹی سے ملنے آیا تو پولیس نے اُسے گرفتار کرلیا اور اُس کی نشاندہی پر علیشا کو بازیاب کروایا گیا تو خون میں لت پت بچی کی حالت قابل رحم تھی ۔ اس موقع پر مجرم رفیق نے خاتون اور بچی سے زیادتی کا اعتراف کیا اور جب پولیس اُسے ساتھیوں کے ٹھکانے کی نشاندہی کیلئے ساتھ لے کر گئی تو وہ اپنے ساتھی ملزمان کی فائرنگ سے مارا گیا جبکہ زیادتی میں ملوث دوسرے ملزم خیر اللہ بگٹی کو گرفتار کرلیا گیا۔ متاثرہ خاتون تبسم جب اپنی آپ بیتی سنارہی تھی تو اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس موقع پر خاتون بہت سہمی ہوئی اور بچی کے مستقبل کے بارے میں فکر مند نظر آئی۔ میں نے خاتون کو بچی کے صحت یاب ہونے پر اُس کے تمام تعلیمی اخراجات اٹھانے کا یقین دلایا۔

کشمور واقعہ سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ دنیا میں ایسے سفاک اور درندہ صفت لوگ بھی موجود ہیں جن کے نزدیک انسان اور انسانیت کی کوئی قدر و قیمت نہیں جبکہ دوسری طرف محمد بخش جیسے اچھے پولیس افسر بھی موجود ہیں جس نے کسی دوسرے کی بیٹی کی جان بچانے کیلئے اپنی بیٹی کی زندگی خطرے میں ڈال کر پولیس کا سر فخر سے بلند کردیا۔ سندھ حکومت نے محمد بخش کو بطور انعام 10لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ متاثرہ خاتون اور اُس کی بچی کیلئے بھی امداد کا اعلان کیا جائے تاکہ اُنہیں سرچھپانے کیلئے چھت میسر آسکے۔ پاکستان میں حالیہ دنوں میں جنسی زیادتی کے واقعات میں ہولناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ قصور کی زینب ہو یا کراچی کی علیشا، اِن بچیوں پر ہونے والے ظلم و بربریت کا سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ ہم مقبوضہ کشمیر میں درندہ صفت بھارتی فورسز کی کشمیری خواتین اوربچیوں سے جنسی زیادتیوں پر تو بہت شور مچاتے ہیں مگر ہمیں اپنے گھر میں بھی دیکھنا چاہئے کہ کیا ہو رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس المناک اور دلخراش واقعہ کے بعد معاشرہ جاگے گا یا ہم کسی نئے سانحہ کا انتظار کرتے رہیں گے؟ سندھ حکومت نے واقعہ کا مقدمہ کشمور تھانے میں درج کروایا ہے اور ہر پیشی پر متاثرہ خاتون کا بچی کے ساتھ کشمور جانا کسی خطرے سے خالی نہیں۔ میں اپنے کالم کے توسط سے چیف جسٹس گلزار احمد سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ظلم کے اِس مقدمے کو کراچی ٹرانسفر کریں اور مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر کی جائے تاکہ سفاک اور درندہ صفت مجرموں کو جلد از جلد سخت سزائیں دے کر نشانِ عبرت بنایا جاسکے اور آئندہ کوئی ننھے بچوں کو اپنی ہوس اور درندگی کا نشانہ نہ بنا سکے۔