این ایچ اے پر قرضوں کا بوجھ

December 04, 2020

1991میں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی نیشنل ہائی وے اتھارٹی پاکستان میں شاہراہوں کی تعمیر کے حوالے سے اہمیت کی حامل رکھتی ہے۔ یہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے شاہراہوں کے منصوبوں، دفاعی نقطہ نظر سے اہم سڑکوں کی منصوبہ بندی، نگرانی اور مرمت کی نگران بھی ہے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ این ایچ اے جیسا ادارہ بھی قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے جن کا مجموعی حجم تقریباً 20کھرب روپے ہے۔ اتھارٹی کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ اِن قرضوں کو گرانٹ میں تبدیل کر دیا جائے تاہم فی الحال ملک کی اقتصادی صورتِ حال کے پیشِ نظر ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا جس کے باعث بدھ کے روز وزیراعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں این ایچ اے کیلئے متبادل اقتصادی وسائل پیدا کرنے کی غرض سے ماڈل کی تخلیق کیلئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی قیادت میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ این ایچ اے اِس وقت 39قومی شاہراہوں، موٹرویز اور اسٹرٹیجک روڈز کی نگرانی کر رہی ہے جن کی مجموعی لمبائی 12131کلومیٹر ہے۔ اگرچہ قومی شاہراہوں میں تناسب کے تناظر میں اِس کا حصہ زیادہ نہیں تاہم اس کے باوجود ان شاہراہوں پر ملک کی 80فیصد تجارتی ٹریفک رواں دواں ہے۔ اِن حالات میں ٹول ٹیکس، شاہراہوں کے کنارے ریسٹ ایریاز اور دیگر ذرائع سے این ایچ اے اپنے قرضوں کے حجم کو کم کر سکتا ہے جب کہ محکمۂ سیاحت اگر این ایچ اے کے ساتھ مل کر کام کرے تو سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دے کر بھی این ایچ اے کے لئے متبادل اقتصادی وسائل پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ دوسری جانب حکومت پر بھی لازم ہے کہ وہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے قائم کئے گئے اِن اداروں کی اقتصادی مشکلات دور کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998