نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا؟

December 05, 2020

حقیقت پسندی کتنی اعلیٰ چیز ہے، بارہا من چاہتا ہے کہ اِس کو پوری طرح اپنا لیا جائے لیکن کیا کریں مجبوری ہے کہ سچ بھی اُتنا ہی بولا جا سکتا ہے جتنا ہضم ہو جائے۔ اگر کسی کا ایجنڈا یہ ہو کہ وہ اپنی سوسائٹی کو اپنے آدرشوں یا اعلیٰ وچاروں کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے تو یہ تبھی ممکن ہے جب وہ کسی نہ کسی صورت اسٹیج پر موجود رہے، ورنہ فارغ ہو جانا یا رتبۂ شہادت پر فائز ہو جانا کونسا مشکل ہے؟ درویش نے ہیومن ہسٹری یا اسلامی تاریخ کا جتنا بھی مطالعہ کیا ہے، اُسے جہاں اپنی محبوب شخصیات کے قتل یا شہادتوں کا ہمیشہ صدمہ رہا ہے وہیں وہ یہ غور کرتا رہا ہے کہ وہ کامل سچائی سے تھوڑا انحراف کر لیتے، کچھ مصلحت یا مصالحت سے کام لے لیتےتو شاید سانحہ سے دوچار نہ ہوتے۔

بلاشبہ زندگی میں چند مراحل ایسے آ بھی سکتے ہیں جہاں پیچھے مڑنا آپ کے مشن یا آدرشوں کو برباد کر سکتا ہے۔ چند برس مزید جی کر اگر انسان اپنے اعلیٰ وچاروں کو بےتوقیر کر بیٹھے تو پھر وہ تاریخ میں مر گیا تو یہ اُس شخص کی موت نہ ہوئی، اُس کے مشن کی موت ہوئی۔ ایسی صورت میں وقار کے ساتھ یہ سمجھتے ہوئے پھندے یا گولی کو چوم لینا بھی عشق کی شان ہے۔ ’’جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی...‘‘۔ نظریہ مشن کے باوجود اپنی نئی نسلوں کے نام درویش کا یہ پیغام ہے کہ شہادتوں کا شوق کبھی مت پالئے، آزمائشوں یا امتحانوں سے بڑی بڑی ہستیوں نے بھی پناہ مانگی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گلے پڑا ڈھول بجانا پڑتا ہے لیکن آپ ہمیشہ زندگی سے پیار کیجئے، زندہ رہنے کی تراکیب سوچئے، خودکشی اسی لئے لعنت قرار پائی ہے کہ زندگی سے محبت کرنے والے کبھی اِس طرح کی منفی سوچ کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔

موت دکھوں سے چھٹکارا دلانے والی چیز ہے اور ہمارے صوفیا تو ہمیشہ سے موت کو خوش آمدید کہتے ہوئے اُسے وصال کے معنوں میں لیتے رہے ہیں۔ یعنی اُسی کی برکت سے وہ اپنے محبوب سے ملاقات کرتے ہیں، شاید اُن کی موت کا جشن یعنی عرس منایا جاتا ہے لیکن ہمارا ماڈریٹ فرقۂ تصوف انسانیت سے اِس قدر عشق و محبت رکھتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، اِس لئے وہ زندگی سے بھرپور پیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیارے عزیزوں اور دوستوں کی طرح اپنے محبوب آدرشوں کے پھیلائو سے جدائی یا ہجر نہیں چاہتے۔ اُن کی نظروں میں موت ایک وحشت ہے، جو اپنوں کے محبت بھرے لمس یا محفل خوباں سے چھین کر اندھیری قبر میں لے جاتی ہے۔ اِسی الجھن اور کشمکش میں ایک دن بابا جی اشفاق احمد سے کہا، بابا جی لوگ کہتے ہیں مومن کبھی موت سے نہیں ڈرتا لیکن سچ تو یہ ہے کہ بندہ باوجود تمام تر درویشی کے اس ڈائن سے ڈرتا ہے، تو کیا یہ سمجھا جائے کہ وہ مومن نہیں ہے؟ بابا جی بولے، کہنے والے جو مرضی کہتے رہیں لیکن ریحان میاں بات آپ کی سچ ہے، میں جتنا بھی صوفی ہوں جو بھی ہوں، پوری سچائی یہی ہے کہ اندر سے چاہتا میں بھی یہی ہوں کہ یہ ڈائن ذرا دور ہی رہے۔

ناچیز کو جس طرح اپنے عزیزوں کے کھو جانے کا دکھ بچپن سے لے کر اب تک ہر پل رہا ہے اور زندگی اُن کی یادوں میں آنسو بہاتے گزری ہے، اُسی طرح تاریخی حوالوں سے اپنی محبوب ہستیوں کی شہادتوں یا بےوقت قتلوں کا صدمہ بھی ہمیشہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا جہاں سے انسانی غلامی کا بالفعل خاتمہ کرنے والے امریکی صدر ابراہام لنکن کو جس بےدردی سے قتل کیا گیا، بارہا غور کیا کہ کاش اُس رات وہ تھیٹر نہ جاتے لیکن ماحول جیسا بن چکا تھا، جس نوع کی دھمکیاں آ رہی تھیں، یہ نہ ہوتا تو کوئی اور سانحہ ہو جاتا۔ جس نوع کی خانہ جنگی ہو رہی تھی، کیا وہ ملکی و قومی سلامتی پر سمجھوتہ کر لیتے؟ اور کیوں کر لیتے؟ ناچیز مہاتما گاندھی کے متعلق سوچتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی حمایت میں اِس قدر آگے تک نہ جاتےکہ ہندوانتہا پسندوں کو ناراض کر بیٹھے، سچائی بڑی اچھی چیز ہے مگر سو فیصد سچائی خطرناک ہوتی ہے۔ خاکسار کے دو ہیروز وزیراعظم اضحاق رابن اور صدر انور سادات تو ابھی کل کی بات ہیں جو حق، صداقت اور امن وسلامتی کے سفر میں اِس قدر آگے بڑھے کہ گاندھی جی کی طرح اپنی ہی اقوام کی متشدد سوچ کا نشانہ بن گئے۔ انہیں کوئی بیچ کی راہ نکالنی چاہئے تھی پھر سوچتا ہوں کہ کیسے نکالتے؟ کیا سچائی کے مقدس مشن کو چھوڑ دیتے؟ کچھ ایسی ہی کیفیات اندرا گاندھی اور محترمہ بےنظیربھٹو کے حوالے سے ہیں، ہر دو عظیم شخصیات اپنے قومی مقاصد یا اعلیٰ آدرشوں پر قربان ہو گئیں لیکن خاکسار کا خیال ہے کہ دونوں کو اپنی سیکورٹی اور وچاروں کے حوالے سے احتیاط کرنی چاہئے تھی۔ شہادت حاصل کرنا ذرا مشکل کام نہیں ہے، انسان کو معمولی غلطی پر آئوٹ ہوتے دیر نہیں لگتی لیکن حکمت عملی کے ساتھ کریز پر رہیں گے تو قوم کے لئے اسکور کر سکیں گے یہی مشکل اور صبر آزما اننگز کہلاتی ہے۔ عاشقی صبر طلب اور تمنا بےتاب۔