ہزارہ برادری سے مذاکرات کامیاب

January 10, 2021

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے دس غریب کان کنوں کے اغوا ء اور سفاکانہ قتل کی روح فرسا واردات کے بعد اتوار سے جمعے کی رات تک پوری قوم نے یہ تمام وقت شدید کرب و الم کی کیفیت میں گزارا کیونکہ مچ کے علاقے گشتری میں پیش آنے والے اس سانحے کے بعد شہداء کے لواحقین اور ہزارہ برادری کے مرد و زن نیز اس ظلم عظیم پر ان سے ہمدردی کے لیے پہنچنے والے سینکڑوں افراد مقتولین کی لاشوں کے ساتھ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے سخت سردی کے باوجود کوئٹہ میں دھرنا دیے ہوئے تھے ۔ مظاہرین کے مطالبات میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ وزیر اعظم خود سوگواروں کے پاس آکر ان کی بات سنیں ۔دو وفاقی وزراء نے ہزارہ برادری کے نمائندوں سے موقع پر پہنچ کر بات چیت کی اور وزیر اعظم کے بلائے جانے کی شرط پر یہ موقف اختیار کیا کہ یہ روایت قائم ہوگئی تو وزیر اعظم کو ایسے ہر موقع پر اسی طرح بلایا جائے گا۔منفی آٹھ دس درجہ حرارت میں کھلی جگہ پر اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ راتیں گزارنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے یہ رویہ جس قدر تکلیف دہ تھا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ حکومتی موقف کے حق میں سیکوریٹی کا نکتہ بھی پیش کیا گیا۔ یہ تاثر بھی عام کیا گیا کہ مظاہرین کے کئی مطالبات قطعی ناقابل قبول ہیں اور ان کے پیچھے کوئی بیرو نی قوت ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یہ مطالبات منوانا چاہتی ہے مگر بعد میں تمام مطالبات مان لیے گئے۔ اتنے حساس اور سراسر انسانی مسئلے میں یہ حکومتی طرز عمل ملک بھر میں بے چینی کا سبب بنا اورہزارہ برادری کے مطالبات کے حق میں کراچی میں درجنوں مقامات کے علاوہ ملک کے متعدد بڑے شہروں میں دھرنے شروع ہوگئے، ملک کی بڑی شاہراہیں بند ہونے لگیں اور شہروں کے اندر بھی آمد ورفت میں لوگوں کو شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ وزیر اعظم اپنے اس موقف پر ڈٹے رہے کہ وہ لاشوں کی تدفین سے پہلے کوئٹہ نہیں جائیں گے اور وزیر اعظم نے گذشتہ روز خود ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہاکہ حکومت نے ہزارہ برادری کے تمام مطالبات مان لیے ہیں لیکن لاشوں کی تدفین سے پہلے مجھے بلانے کی شرط بلیک میلنگ ہے جسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا البتہ مقتولین کی تدفین کے فوراً بعد میں کوئٹہ جانے کے لیے تیار ہوں۔ ملک بھر میں بڑھتے ہوئے اضطراب کے باوجود وزیر اعظم کا لاشوں کی تدفین سے پہلے سوگواروں سے تعزیت کے لیے کوئٹہ نہ جانے پر اصرار ملک بھر بالعموم حیرت واستعجاب کا باعث بنارہا اور اس کی کوئی معقول توجیہ مشکل محسوس کی جاتی رہی۔ یہاں تک کہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق کئی وفاقی وزراء نے بھی وزیر اعظم کو شہداء کی تدفین سے پہلے کوئٹہ جانے پر قائل کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔ تاہم خدا کا شکر ہے کہ رات گئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور دھرنا منتظمین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے ،ہزارہ برادری کے تمام مطالبات تحریری معاہدے میں تسلیم کرلیے گئے اور منتظمین نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ معاہدے کے تحت جے آئی ٹی بنے گی جس میں شہداء کے لواحقین اور حکومت کے دو دو نمائندے شامل ہوں گے ،وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ادارے مل کر سیکورٹی پلان بنائیں گے، واقعے سے متعلق ہائی لیول کمیشن بنا دیا گیا ہے نیز معاہدہ کے تحت شہداء کے شرعی وارث کو صوبائی حکومت ملازمت دے گی۔اس معاہدے پر کسی لیت و لعل کے بغیر پوری نیک نیتی اور مستعدی سے عمل درآمد قومی مفاد اور دیانت داری کا لازمی تقاضا ہے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم کی آرمی چیف کے ہمراہ سوگواروں سے ملاقات اور اظہار ہمدردی صورت حال کو مزید بہتر بنانے کا باعث بنے گی لیکن یہ ضرور سوچا جانا چاہیے کہ کیا اظہار ہمدردی کے لیے وزیر اعظم کا اس سے پہلے پہنچ جانا ملک کو انتشار و اضطراب کے پانچ دنوں سے بچا نہیں سکتا تھا۔