لتا اور رفیع نے گیتوں کی رائلٹی کے تنازع پر تین برس ساتھ گانا نہیں گایا

January 21, 2021

ممبئی (مانیٹرنگ ڈیسک)50ء اور 60ء کی دہائی میں فلموں میں بجنے والی گیتوں کے ایل پی ریکارڈ بنتی تھی جو گراموفون کی مدد سے بجائی جاتی تھی۔ جس قدر ایل پی ریکاڈز بکتے اس کا 10 فیصد فلم کے پروڈیوسر کو دیا جاتا تھا۔ تب بولی وڈ کے منظر نامے پہ رفیع لتا کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ دونوں کے ریکارڈ زبردست مقبول ہوتے۔ لتا کو خیال آیا ہماری آواز کا رزق پروڈیوسر اور موسیقار کھا رہے ہیں اور ہم خاموش بیٹھے ہیں۔ لتا نے مکیش، طلعت، مناڈے اور گیتا دت کو الگ الگ ملاقات کر کے ڈھائی فیصد رائیلٹی طلب کرنے پر آمادہ کیا اور سب نے تائید کی۔ سب سے اہم مرحلہ قناعت پسند رفیع کو قائل کرنا تھا۔ جب رفیع کے سامنے بات رکھی گئی تو انہوں نے صاف کہہ دیا، ’جب ہم نے اپنی مرضی کی فیس لے کر گا دیا تو اس کے بعد ہمارا اس گیت سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ وہ کامیاب ہو تو فائدہ بھی پروڈیوسر اور موسیقار کو ہونا چاہیے کیونکہ اس کی ناکامی کا نقصان بھی انہیں برداشت کرنا ہوتا ہے۔‘لتا کو یہ مشکل مہم سر ہوتی نظر نہ آئی تو خاموش ہو گئیں۔ لیکن دل ہی دل میں انہیں یہ بات کچھ بھائی نہیں۔ایک دن مکیش اپنی گاڑی میں بٹھا کر لتا کو میرین ڈرائیو لے گئے اور کہنے لگے، ’دیدی، رفیع صاحب بہت سیدھے انسان ہیں جو بات دل میں ہو وہی زبان پر ہوتی ہے۔ اصل مسئلہ باقی لوگوں کا ہے جن کی غٹرغوں ہمارے سامنے کچھ اور پروڈیوسروں کے سامنے کچھ ہوتی ہے۔‘لتا نے کہا کہ ’اس کا ایک ہی حل ہے کہ سب لوگ بلا لیے جائیں اور ایک جگہ پر بیٹھ کر فیصلہ کر لیا جائے اور سب کے دستخط کروا لیے جائیں۔‘ ساتھ ہی لتا نے مکیش کے ذمے لگا دیا کہ آپ سب کو اکٹھا کریں۔متعلقہ دن طلعت محمود، مکیش، گیتا دت، رفیع اور لتا ایک جگہ پر سر جوڑ کر بیٹھ گئے تاکہ فیصلہ ہو کیا کرنا ہے۔ رفیع نے دوبارہ اپنا پرانا موقف دہرایا تو لتا نے کہا کہ ’ایسے کیسے؟ کیا پتہ کب تک ہم ایسے گا سکتے ہیں لیکن ریکارڈز تو ہمیشہ بکتے رہیں گے۔ اس لیے ہمارے پاس ایک محفوظ ذریعہ آمدن ہونا چاہیے۔‘رفیع صاحب نے کہا، ’ٹھیک ہے جیسے مہارانی کہتی ہیں وہی کر لیجیے۔‘ لتا کے لیے مہارانی کا لفظ پہلے بھی استعمال ہوتا تھا لیکن اس لمحے کی نزاکت اور شاید رفیع صاحب کے لہجے کے سبب لتا بگڑ گئیں اور بولیں، ’میں مہارانی ہوں تو ہوں آپ کون ہوتے ہیں مجھے ایسے کہنے والے۔