سوچ کو بدلنا ہوگا

February 17, 2021

ویسے تو کئی شعبے ہیں مگر تین شعبوں زراعت، سیاحت اور آئی ٹی پر ہم توجہ نہیں دے سکے۔ اگر ہماری حکومتیں توجہ دیتیں تو ہم بہت آگے ہوتے۔ چار دہائیوں سے ہماری حکومتیں زمینداروں اور کسانوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ ہم اپنی زراعت کو حالات کے مطابق جدید نہیں بنا سکے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سونا اگلتی زمین راکھ میں بدل گئی، کاشتکار پس گیا، ہماری حکومتیں سوئی رہیں۔ نہ تحقیق ہو سکی اور نہ ہی سائنسی بنیادوں پر کوئی کام۔ منڈیوں کا بوسیدہ نظام مزید پیچیدہ ہو گیا۔ پانی پر توجہ کا یہ عالم رہا کہ نیا ڈیم بنانا جرم تصور ہونے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم انرجی اور زراعت دونوں میں پیچھے رہ گئے۔ ہم نے ایک خوبصورت زرعی ملک کو صنعتی ملک بنانے کی کوشش کی مگر ہم یہ بھول گئے کہ صنعتوں کو چلانے کے لئے توانائی چاہئے اور توانائی کے حصول کے لئے ڈیمز کا ہونا بڑا ضروری ہے۔ یوں ہم زراعت میں بھی پیچھے رہ گئے اور ایک بھرپور صنعتی ملک بھی نہ بن سکے حالانکہ ہم زرعی ملک کے طور پر بہترین پھل، سبزیاں اور اجناس اگا سکتے تھے، برآمد کر سکتے تھے۔ اسی طرح دودھ اور گوشت میں نہ صرف خودکفیل ہو سکتے تھے بلکہ برآمد کر کے ملکی معیشت کو مضبوط بنا سکتے تھے۔

دوسرا شعبہ سیاحت ہے، ہم اس میں بھی بہت کچھ کر سکتے تھے مگر نہ کر سکے۔ ہماری حکومتیں اس پر توجہ نہ دے سکیں حالانکہ ہمارے پاس دنیا کی بڑی چوٹیاں، برف پوش پہاڑ اور قدرتی مناظر سے بھرپور خوبصورت ترین علاقے ہیں جہاں آبشاریں ہیں، ندی نالے ہیں، ہمارے پاس دریا، صحرا، سمندر سب کچھ ہے۔ ہریالی بھرے وسیع و عریض میدان، ساڑھے سات سو کلومیٹر طویل ساحلی پٹی، ساحلوں کو چھوتا ہوا رنگ بدلتا پانی گویا حسن بکھرا پڑا ہے۔ ہمارے ہاں دنیا کے تین بڑے مذاہب کے بنیادی مذہبی مقدس مقامات موجود ہیں مگر ہماری حکومتوں نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ہم مذہبی سیاحت کے ذریعے اپنی سوغاتیں متعارف کروا سکتے تھے، کاروبار چمکا سکتے تھے مگر ہم ایسا نہ کر سکے۔ ہم اپنے خوبصورت ترین علاقے دنیا کو دکھا سکتے تھے مگر ہم ایسا بھی نہ کر سکے۔

تیسرا شعبہ آئی ٹی ہے۔ ہمیں آئی ٹی انقلاب میں آگے ہونا چاہئے تھا مگر ہم ایسے ادارے ہی نہ بنا سکے کیونکہ ہمیں ٹھیکوں میں کمیشن کھانے کا شوق بہت ہے، ہمیں کبھی یہ احساس ہی نہ ہو سکا کہ جدید تقاضے کیا ہیں حالانکہ ہماری نوجوان نسل کا آئی کیو لیول (ذہانت کا معیار) ہندوستانی اور مغربی نوجوانوں سے کہیں بہتر ہے۔ وزیراعظم عمران خان جانتے ہیں، انہیں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے75کیمپس بتا چکے ہیں کہ پاکستانی نوجوانوں کا ذہنی معیار بہت بہتر ہے۔ ہمیں مان لینا چاہئے کہ ہم جدید ترین ادارے بنانے میں ناکام رہے، ہم آئی ٹی پر وہ توجہ نہ دے سکے جو دیگر ملکوں نے دی۔

خواتین و حضرات! ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک میں جگہ جگہ زرعی تحقیق کے مراکز نظر آتے، کھیت اور منڈی کو ملا دیا جاتا، مڈل مین کے کردار کو ختم کرکے حکومت یہ کردار خود ادا کرتی، پاکستانی اجناس اور پھلوں کو دنیا بھر میں متعارف کرواتی مگر ایسا نہ ہو سکا، ہم نے تو اپنے درخت بھی گنوا دیے، اب مختلف ملکوں سے منگوائے گئے درخت بیماریاں پھیلا رہے ہیں، ہماری اپنی دھرتی کے درخت غائب ہو گئے ہیں۔ سیاحت میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آج ملک کے ہر حصے میں، کونے کونے میں سیاحتی مراکز ہوتے، سیاحت کی ترویج کے لئے دفاتر ہوتے، سیاحوں کے لئے شاندار ہوٹل ہوتے، جگہ جگہ ریستوران ہوتے مگر یہ سب کچھ نہ ہو سکا۔ اسی طرح آئی ٹی اور جدید تعلیم کے ادارے ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوتے مگر افسوس ہم ادارے بناتے وقت بھی تعصبات سے باہر نہیں نکلتے، ہم نے تو اپنی آدھی آبادی کو بھی نظر انداز کیا، ہم انہیں خواتین کہہ کر پیچھے دھکیلتے رہے اور یہ کھیل اس ملک میں ہوتا رہا، جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایسا مسلمان ملک ہے جہاں سب سے پہلے ایک خاتون وزیراعظم بنی۔ دعوے کرنے والے پیچھے رہ گئے اور ایک ڈکٹیٹر بازی جیت گیا، اس نے ایوانوں میں عورتوں کی نمائندگی اس قدر بڑھائی کہ مغربی ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

دوستو! یہاں کی عورت حوصلہ نہیں ہارتی۔ مثلاً پنجاب کے دیہی علاقوں کی پانچ عورتوں کی مثال پیش کرتا ہوں۔ ان میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سب سے آگے ہیں۔ انتہائی پڑھی لکھی، روایات پر عمل پیرا، انگریزی اردو بھرپور بولتی ہیں لیکن اپنے علاقے میں عام لوگوں کے سامنے انگریزی کا رعب نہیں جھاڑتیں بلکہ ٹھیٹھ پنجابی بولتی ہیں۔ اسی طرح سیدہ صغریٰ امام شاندار انگریزی لکھتی، بولتی ہیں مگر اپنے وسیب میں جا کر صرف جھنگوچی بولتی ہیں۔ جہاں آرا وٹو انگریزی اور اردو لکھتی ہیں، بولتی بھی شاندار ہیں لیکن وساوے والا میں وہ پنجابی ہی بولتی نظر آتی ہیں۔ ایسا ہی تہمینہ دولتانہ کے ہاں ہے۔ لبنیٰ بھایات کا شمار دنیا کے چند بڑے معیشت سمجھنے والوں میں ہوتا ہے، لبنیٰ بھایات بھی انگریزی اردو سمیت چند اور زبانوں پر عبور رکھتی ہیں لیکن پاکستان میں جب وہ لاہور یا ملتان میں ہوں تو پنجابی اور سرائیکی بولتی ہیں۔ ان پانچوں خواتین کا پس منظر سیاسی ہے۔ آخری خاتون لبنیٰ بھایات کی والدہ جسٹس (ر) فخر النسا کھوکھر وکیل، جج اور قومی اسمبلی کی رکن رہیں۔ لبنیٰ بھایات کے والد ماریشس کے ڈپٹی پرائم منسٹر رہے۔ آج کل لبنیٰ بھایات عورتوں کی معاشی حالت سدھارنے کے لئے کام کر رہی ہیں۔ چند برس پہلے اس خاتون نے لندن کے ایک بڑے معاشی ادارے کو چھوڑ کر پاکستان آنا مناسب سمجھا۔ لبنیٰ بھایات کو پاکستان میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس نے تیرہ برس انٹرنیشنل بینکنگ میں گزارے تھے۔ ان کا کہنا ہے ’’میں 2019میں وومن چیمبر آف کامرس کی صدر بنی تو علم ہوا کہ پاکستان کی جاب مارکیٹ میں خواتین کا حصہ صرف پندرہ بیس فیصد ہے جبکہ آدھی آبادی کو نظرانداز کر کے کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ اسی لئے میں نے جاب پورٹل شروع کیا ہے، میرا مقصد ہے کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ جابز ملیں تاکہ وہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ بس اس کے لئے سوچ کو بدلنا ہوگا‘‘۔ بقول ناصرہ زبیری ؎

مانگ رہی تھی قرض زمیں کا

پھر اک بار سوالی مٹی