سینیٹ الیکشن اور سابق وزیراعظم سے ایک ملاقات

February 21, 2021

جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ، سینیٹ ایک کورٹ آف لا ہے جو کورٹ آف پالیٹکس کا روپ رکھتی ہے۔ اگر اس پالیٹکس میں درست پالیٹیشین پہنچ جائیں تو 1973 کے آئین کی کاوش سو فی صد ثمر بار ہوجائے، اہل نظر کو یاد ہوگا کہ، 1956 کے آئین کو جب طاقت نے 1958 میں زیرتسلط لیا تو سینیٹ کی امید کی شمع 1973 تک کیلئے گل کردی گئی۔ اور ہم اندھیرے میں بیٹھ کر کئی برس گل شدہ شمعوں کے ماتم کرتے رہے۔ اب خواہش ہے سینیٹ کی امید کی شمع آنکھوں میں امید کے دیپ کی طرح رہے۔

مجھے یہ بھی بار ہا اچھا لگا کہ ایک بل اگر قومی اسمبلی سے منظور ہوا تو سینیٹ میں اسے روکنے کی کوشش کی گئی، اس لئے اچھا لگا کہ دونوں ایوان اپنی اپنی جگہ محنت اور تدبر کو بروئے کار لائے۔ ماضی میں جب رضا ربانی چیئرمین تھے تو انہوں نے سینیٹ ایوان میں جو’’جمہوری گلی‘‘ بنائی سو بنائی مگر وہ بعض اوقات ایک تیسری پارلیمانی قوت بن جاتے جب وہ اپنے پیپلزپارٹی اور مخالف نون لیگ کی پالیسی اور طرزِ تکلم اور طرزِ عمل کو ناپسند کرکے اپنا نقطہ نظر سامنے رکھتے۔ سینیٹ اس لئے بھی توازن کا دلکش ایوان ہے کہ فیڈریشن کو کوالٹی کی طرز پر دیکھتا ہے نہ کہ کوانٹٹی کے معیار پر۔ امریکہ میں تو خیر کانگریس اور سینیٹ کے علاوہ تیسری قوت صدر بھی ہوتا ہے سو ہم بھی امریکن ’’چالوں‘‘ میں آکر کبھی کبھی اپنی چال بھول جاتے ہیں، اور ہمارے وزرائے اعظم کیبنٹ کو بھول کر فیصلے کرنے لگتے ہیں تو پھر عدالتوں کو یاد کرانا پڑتا ہے کہ، کوئی اور بھی ہے پس آئین کو بھی دیکھ لیا کریں۔

بہرحال، حالیہ سینیٹ الیکشن کی سنجیدگیاں اور رنجیدگیاں پاکستان کی جمہوریت اور جمہوری اعتماد کا کیا نقشہ تراشنے جارہی ہیں اس پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم یہ کہنا غلط نہیں کہ عمران خان جو اعتماد اپنی تقریروں یا وعدوں میں دکھاتے ہیں، وہ حقیقت میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ وزارتِ عظمیٰ کے قلم دان پر ان کی دسترس بھلے ہی مضبوط سہی مگر وِژن اور اعتماد کا فقدان ہولناک حد تک بڑھا ہے۔ یہ سب ایک تراشہ ہوا جملہ ہے نہ خواہش کا صریر خامہ، یہ وہ حقیقت ہے جو موجودہ حکومتی دور کی پیشانی پر کندہ ہے جسے آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے! سینیٹ کو ہمیشہ ہی مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا رہا ہے، عام نشستوں سے ٹیکنوکریٹس اور مشائخ تک سبھی سیاست کاری کے قریب تر اور ٹیکنوکریسی سے دور نظر آتے ہیں۔ ان دنوں یہ شوروغل بھی عروج پر ہے کہ خفیہ رائے دہی کہ شو آف ہینڈز۔ ویسے تو اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ماضی میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی بھی خفیہ رائے دہی کے بجائے سینیٹ انتخابات میں شو آف ہینڈز چاہتی تھی مگر اب سب اُلٹ ہے۔ عمران خان اب شو آف ہینڈز کے لئے کوشاں ہیں اور پی ڈی ایم سیکریٹ بیلٹنگ کی خواہاں ہے۔

اصل ماجرا کیا ہے؟کھوج لگانے کی خاطر تین چار روز قبل شہراقتدار میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق وزیر مملکت چوہدری جعفر اقبال، راجہ خرم پرویز اشرف اور ڈاکٹر وقاص خان سے ایک نشست میں راقم نے پوچھا کہ اب خفیہ و غیر خفیہ رائے دہی پر اتنی زور آزمائی کیوں؟ جواباً راجہ صاحب بولے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اپنی تعلق داریوں اور رشتہ داریوں کا خوف ہے کہ اندر ہی اندر اُن کے میل ملاپ اور حکومت سے نالاں خواص، اسلام آباد کی سیٹ پر ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بجائے یوسف رضا گیلانی کو ترجیح دے دیں گے۔ بہرحال راجہ صاحب کی یہ بات درست دکھائی دیتی ہے۔ گو اس طویل نشست کا موضوع سینیٹ الیکشن ہی نہیں تھا چنانچہ گفت و شنید تھر کول اور ملکی توانائی وغیرہ اور آسمان سے باتیں کرتی تیل کی قیمتوں پر بھی ہو رہی تھی۔ اس موقع پرراجہ صاحب کو ہنستے ہنستے میں نے عرض کی کہ شاید اتنا ڈھنڈورا آپ لوگوں نے نہیں پیٹا جتنا میں نے سندھ ہائر ایجوکیشن و امورِصحت اور تھر کی ترقی کا پیٹا ہے۔ اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ، اس بات کو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی انجوائے کرتے ہیں۔ بہرحال انرجی سیکٹر میں راجہ صاحب کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ خیر اس بات کے بعد کہ ’’پنجابی سیاستدان دوستوں کے خوف اور سندھی سیاستدان اپنے خول سے نکلیں تو کرنے والی باتیں ہوں اور حقیقی ترقی کے دریچے کُھلیں‘‘ ہم سینیٹ الیکشن کی جانب لوٹ آئے۔ ایک سچ یہ ہے کہ سبھی پارٹیاں اپنی جیت کے مطابق دیکھتی ہیں کسی لگے بندھے اصول کو نہیں، تاہم پورا سچ یہ ہے کہ کارروائی ڈالنے والے بھی تو نیا طریقہ و سلیقہ تراش لیتے ہیں پس موسم اورپِچ کو مدنظر رکھ کر اصول تراشنے پڑتے ہیں۔

اس ملاقات میں جو سینیٹ الیکشن پر بات ہوئی وہ الیکشن اصول و ضوابط پر یا یوسف رضا گیلانی پر، بقول راجہ پرویز اشرف پہلے مرحلہ پر گیلانی الیکشن سے بچنے کیلئے الیکشن کمیشن میں جو اعتراض اٹھائے گئے وہ مذاق کے سوا کچھ نہ تھے، میں اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایک سابق وزیراعظم کے پروموٹر تھے اور دفاع میں بھی۔

آخر کار، اس گفت و شنید اور عمومی جائزہ کے بعد میرے ذہن میں مقتدر ہ کی ’’غیرجانبداری‘‘ کے علاوہ چار ہی پہلو آتے ہیں۔ ایک، یہ کہ گیلانی اور حفیظ شیخ زرداری ڈالی ہی کے دو پھول تھے، جنابِ شیخ وزیراعظم گیلانی کے وفاقی وزیر ہی تو تھے۔ تیسری بات یہ کہ جناب واوڈا ہوں کہ حفیظ شیخ تحریک انصاف کی اصل قیادت اور کارکنان اِنہیں تاحال قبول ہی نہیں کرپائے۔ آخری بات یہ کہ اگر خفیہ رائے دہی ہوئی تو کیا ایم کیو ایم اور کیا جی ڈی اے (گیلانی کی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سمیت) اور قاف لیگ مع گیلانی کے ڈپٹی وزیراعظم پرویز الٰہی سبھی کا معاملہ یہ ہوگا کہ:

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے