حضرت اُمّ الفضل بنتِ حارث رضی اللہ عنہا (قسط نمبر 5)

February 28, 2021

حضرت اُمّ الفضلؓ کا نام، لبابہ، لقب کبریٰ اور کنیت، اُمّ الفضل تھی۔ اُنہیں’’ لُبابۃُ الکُبریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ والد کا نام حارث تھا، جو قریش کے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جب کہ والدہ، ہند بنتِ عوف قبیلہ کنانہ سے تھیں۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: لبابۃ الکبریٰ بنتِ حارث بن خزن بن بجیر بن الہزم ۔

مقام و مرتبہ

آپؓ کی والدہ، ہند بنتِ عوف کو اللہ تعالیٰ نے چار خُوب صُورت اور سعادت مند بیٹیاں عطا فرمائیں۔ چاروں بہنیں مشرف بہ اسلام ہو کر صحابیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوئیں۔ نیز، چاروں کی بنو ہاشم اور قریش کے دیگر معزّز گھرانوں میں شادیاںہوئیں، جس کی بنا پر اہلِ مکّہ اُن کے والدین پر رشک کیا کرتے۔ ہند بنتِ عوف کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بیٹیوں کی بہترین تربیت اور اُن کے سُسرالیوں کے ساتھ نہایت خوش گوار تعلقات رکھنے میں ثانی نہیں رکھتیں۔ وہ ہر دل عزیز اور محبّتیں بانٹنے والی خاتون تھیں اور یہی خوبیاں بیٹیوں میں بھی منتقل ہوئیں۔

حضرت اُمّ الفضلؓ کی شادی بنو ہاشم کے سردار اور چاہ زم زم کے منتظم، حضرت عبّاس بن عبدالمطلبؓ سے ہوئی۔ حضرت اُمّ الفضلؓ کی حقیقی بہن، حضرت میمونہؓ، رسول اللہؐ کی اہلیہ تھیں، جن سے حضورﷺ نے حضرت عبّاسؓ کی درخواست پر عمرۂ قضا کے دَوران عقد فرمایا تھا۔یوں اِس رشتے سے حضرت اُمّ الفضلؓ ،آپﷺ کی خواہرِ نسبتی اور آنحضرتﷺ اُن کے بہنوئی بھی تھے۔ ایک بہن، حضرت سلمیٰ ؓ،حضورﷺ کے چچا، سیّدالشہداء حضرت امیر حمزہؓ کے نکاح میں تھیں، جب کہ دوسری بہن، حضرت اسماءؓ،حضورﷺ کے چچا زاد، حضرت علی المرتضیٰؓ کے برادرِ حقیقی اور جنگِ موتہ کے شہید، حضرت جعفر طیّارؓ کی اہلیہ تھیں۔

قبولِ اسلام

حضرت اُمّ الفضلؓ کا شمار سابقون الاوّلون میں ہوتا ہے۔ اُن کی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے ساتھ دوستی تھی اور یہی قربت اُن کے مسلمان ہونے کا ذریعہ بنی۔ ابنِ اثیر نے لکھا کہ’’ اُمّ الفضلؓ، حضرت خدیجہؓ کے بعد اسلام لانے والی دوسری خاتون تھیں ‘‘(اسدالغابہ 197/4)۔حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد حضورﷺ کی حفاظت کی تمام تر ذمّے داری حضرت عبّاسؓ کے کندھوں پر تھی اور وہ آپﷺ سے بے حد محبّت بھی کرتے تھے۔

یہی سبب ہے کہ بیعتِ عقبہ کے موقعے پر عقبہ کی سنسان وادی میں حضرت عباسؓ،حضورﷺ کے ساتھ تھے اور اُنھوں نے انصار سے اس بات کا عہد لیا کہ اگر وہ رسول اللہ ﷺ کو ہجرت کی دعوت دے رہے ہیں، تو وہ حضورﷺ کی حفاظت کے بھی ذمّے دار ہوں گے۔ حضرت عبّاسؓ کے بارے میں عام طور پر مشہور ہے کہ اُنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن چند مصالح کی بناء پر اس کا اعلان فتحِ مکّہ کے موقعے پر کیا۔حضرت عباسؓ شروع ہی سے اسلام کےبارے میں نہایت نرم گوشہ رکھتے تھے، چناں چہ اُمّ الفضلؓ کو قبولِ اسلام اور بچّوں کی اسلامی ماحول میں تربیت کے سلسلے میں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

شجاعت و بہادری

حضرت عبّاسؓ کے غلام ابو رافعؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ مَیں، حضرت عبّاسؓ کے گھر سے منسلک حجرے میں بیٹھا تیر کے دَستے چھیل رہا تھا۔ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی کام یابی کی خبریں ہم تک پہنچ چُکی تھیں۔ گو کہ حضرت عبّاسؓ قید کر لیے گئے تھے، لیکن اُمّ الفضلؓ اور مَیں مسلمانوں کی جیت پر بہت خوش تھے کہ اچانک ابولہب اپنا متفکر اور وحشت زدہ چہرہ لیے، پائوں گھسیٹتا آیا اور حجرے کے دروازے سے لگ کر بیٹھ گیا۔ اِتنے میں ابو سفیان بھی لوگوں کے ہجوم میں وہاں پہنچا۔ ابولہب نے اُسے دیکھا، تو بولا’’بھتیجے! جنگ کا حال سُنائو۔‘‘ ابوسفیان نے افسردہ لہجے میں کہا’’ چچا! میدانِ جنگ میں اُن لوگوں نے ہمیں گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا، ہمارے تمام سردار قتل کر دیےگئے اور وہ ہمارے جنگ جوئوں کو بھیڑ ،بکریوں کی طرح باندھ کر لے گئے۔

درحقیقت، ہماری جنگ ایک عجیب قسم کی مخلوق سے تھی، جو سُرخ و سفید تھے اور زمین و آسمان کے درمیان چتکبرے، خُوب صورت گھوڑوں پر سوار تھے۔‘‘ ابولہب حیران و پریشان یہ رُوداد سُن رہا تھا۔ ابوسفیان چُپ ہوا، تو مَیں نے کہا’’ خدا کی قسم! وہ عجیب مخلوق اللہ کے فرشتے تھے، جو مسلمانوں کی مدد کے لیے آئے تھے۔‘‘ میرا یہ کہنا تھا کہ ابولہب غصّے سے بپھر گیا اور مجھ پر حملہ کردیا۔

مَیں اُس کے مقابلے میں بہت کم زور تھا، لہٰذا وہ مجھ پر سوار ہو کر مجھے زدوکوب کرنے لگا۔ اُمّ الفضلؓ نے جب یہ منظر دیکھا، تو وہ ہاتھ میں ایک ڈنڈا اُٹھائے دوڑتی ہوئی آئیں اور ابولہب کے سَر پر پوری قوّت سے دے مارا، جس سے اُس کے سَر سے خون کا فوّارہ جاری ہوگیا۔ پھر غضب ناک ہو کر بولیں’’اِس کا مالک یہاں نہیں ہے، اِس لیے اِس مسکین پر ظلم ڈھاتے ہو۔‘‘ ابولہب فطری طور پر ایک بزدل اور پست ہمّت شخص تھا، چناں چہ وہ بہتے خون کے ساتھ وہاں سے چلا گیا اور سات راتیں بھی نہیں گزری تھیں کہ طاعون کی لپیٹ میں آکر مر گیا۔‘‘

غزوۂ بدر کا ایک واقعہ

غزوۂ بدر میں حضرت عبّاسؓ کو قید کرکے لایا گیا، تو انصار نے عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ! عبّاسؓ ہمارے بھانجے ہیں، اِن کی والدہ ہمارے قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں، ہم اِنہیں بغیر فدیہ لیے رہا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا’’ یہ قیدیوں میں سب سے زیادہ مال دار ہیں، لہٰذا ان سے زیادہ فدیہ لیا جائے۔‘‘ حضرت عبّاسؓ نے کہا’’ بھتیجے! میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ اس پر حضورﷺ تبّسم فرماتے ہوئے مخاطب ہوئے’’ چچا عبّاسؓ! آپؓ، چچی اُمّ الفضلؓ کے پاس جو مال و زر سے بَھری گٹھری چھوڑ کر آئے ہیں، اُس میں سے فدیہ ادا کریں۔‘‘ حضرت عبّاسؓ یہ سُن کر نہایت حیران ہوئے، کیوں کہ یہ بات تو اُمّ الفضلؓ اور اُن کے علاوہ کسی تیسرے کے علم میں تھی ہی نہیں۔اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اُمّ الفضلؓکے بھیجے ہوئے زرِ فدیہ سے حضرت عبّاسؓ نے اپنا اور حضرت عقیلؓ کا فدیہ ادا کیا۔

نیک سیرت اولاد

اللہ تعالیٰ نے حضرت عبّاسؓ کو اُمّ الفضلؓ کے بطن سے چھے بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی، جن کے نام فضلؓ، عبداللہؓ، قشمؓ، معبدؓ، عبیداللہؓ، عبدالرحمٰنؓ اور اُمّ ِ حبیبہؓ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِن سب کو اعلیٰ مقام و مرتبہ عطا فرمایا تھا۔ حضرت فضل بن عبّاسؓ سب سے بڑے بیٹے تھے اور اُن ہی کے نام پر اُن کی کنیت، اُمّ الفضلؓ تھی۔ رسول اللہﷺ نے حضرت فضلؓ کو حجۃ الوداع کے موقعے پر اپنے ساتھ سواری پر بٹھایا تھا اور اس عظیم سعادت کی بنا پر وہ رسول اللہﷺ کے ہم رکاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اُنہیں حضورﷺ کے وصال کے بعد دیگر عزیز واقارب کے ساتھ آپﷺ کے جسدِ اطہر کو غسل دینے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔

بیٹوں کی وطن سے دُور تدفین

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ حضرت اُمّ الفضلؓ کے ان چھے بیٹوں کا انتقال اپنے وطن سے دُور، الگ الگ علاقوں میں ہوا اور وہیں مدفون ہیں۔ حضرت فضلؓ کا انتقال حضرت ابو بکر صدّیقؓ کے عہد میں شام میں ہوا۔ دوسرے بیٹے، حضرت قشمؓ نے 56ہجری میں حضرت امیر معاویہؓ کے دَورِ خلافت میں سمرقند میں وفات پائی، جہاں اُن کا مزار’’شاہ زندہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے، جس کی زیارت کے لیے لوگ دُور دُور سے آتے ہیں۔

حضرت عبدالرحمٰنؓ اور حضرت معبدؓ 27ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں حضرت عبداللہ بن سعدؓ کے ساتھ جہاد کے لیے افریقا تشریف لے گئے تھے اور اُسی جنگ میں دونوں بھائی شہید ہوگئے۔ حضرت عبیداللہؓ کے بارے میں مؤرخین نے لکھا کہ اُن کا انتقال یزید کے دورِ حکومت میں مدینہ منوّرہ میں ہوا۔ مفسّرِ قرآن، حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ آخری دنوں میں مکّے سے طائف منتقل ہوگئے تھے، جہاں 68 ہجری میں انتقال فرما گئے۔

مدینۃُ النبیؐ سے محبّت

حضرت اُمّ الفضلؓ کی خواہش تھی کہ وہ بھی مدینہ منوّرہ ہجرت کر جائیں، لیکن حضرت عبّاسؓ کے قبولِ اسلام کا اعلان نہ کرنے کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا، چناں چہ وہ اپنے شوہر اور بچّوں کے ساتھ مکّے ہی میں رہنے پر مجبور تھیں، لیکن فتحِ مکّہ سے پہلے جب حضرت عبّاسؓ نے مشرف بہ اسلام ہونے کا اعلان کیا، تو حضرت اُمّ الفضلؓ کی مدینہ منوّرہ جانے کی خواہش نے شدّت اختیار کرلی اور وہ اپنے شوہر کی اجازت سے بچّوں سمیت مدینہ منوّرہ چلی گئیں۔

بعدازاں، حضرت عبّاسؓ بھی مدینہ منوّرہ منتقل ہوگئے۔ رسول اللہﷺ اُن کے آنے پر بے حد خوش تھے۔ آپﷺ اکثر آلِ عبّاسؓ کے ساتھ کھانا تناول فرماتے اور وہیں دوپہر میں قیلولہ بھی فرمالیا کرتے۔ یوں تو اُمّ الفضلؓ کا ایک گھر مکّے میں بھی تھا، لیکن وہ مدینۃُ النّبیؐ ہی میں رہنا زیادہ پسند کرتی تھیں، چناں چہ اپنی وفات تک مدینے ہی میں مقیم رہیں۔

فہم و فراست

حجۃ الوداع کے سفر میں اُمّہات المومنینؓ اور دیگر صحابیاتؓ کے ساتھ، حضرت اُمّ الفضلؓ بھی حضورﷺ کے ساتھ تھیں۔ عرفہ کا دن آیا، تو لوگوں کا خیال تھا کہ حضورﷺ آج روزے سے ہوں گے، تاہم کچھ کی رائے مختلف تھی۔ یہ بحث صحابیاتؓ کے علم میں آئی، تو حضرت اُمّ الفضلؓ نے،جو حکمت و معاملہ فہمی میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں، دودھ کا پیالہ حضورﷺ کی خدمت میں بھجوایا۔

مقصد یہ تھا کہ اگر حضورﷺ روزے سے ہوں گے، تو دودھ نہیں پئیں گے۔آپﷺ اُس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور سب صحابۂ کرامؓ کے سامنے دودھ نوش فرما لیا۔(صحیح بخاری حدیث1988)۔ ویسے تو عرفہ کے دن روزہ رکھنے کی بہت فضیلت ہے، لیکن آپؐ کے اُس دن روزہ نہ رکھنے میں یہ حکمت تھی کہ حج شدید گرمیوں کے دنوں میں بھی آتا ہے، جس میں دن طویل، گرم اور سخت ہوتے ہیں، تو اللہ کے رسولﷺ اپنی اُمّت کے لیے آسانیاں چاہتے تھے۔

فضل و کمال

حضرت اُمّ الفضلؓ جلیل القدر صحابیہ ہونے کے ساتھ نہایت ملنسار، شریف النفس، نیک سیرت، عابدہ اور زاہدہ تھیں۔ سخاوت و فیّاضی، علم و دانش اور محبّت و شفقت کا پیکر تھیں۔ اپنا زیادہ وقت ذکر واذکار میں گزارتیں، لیکن شوہر کی خدمت، بچّوں کی تربیت، قرابت داروں سے تعلقات اور حُسنِ اخلاق کو سب سے اہم قرار دیتیں۔ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھ کر سُنتِ رسولﷺ کی پیروی کرتیں۔

علّامہ ابنِ عبدالبر نے لکھا ہےکہ’’ حضورﷺ فرمایا کرتے تھے کہ’’ اُمّ الفضلؓ، میمونہؓ، سلمیٰؓ، اسماءؓ یہ چاروں مومنہ بہنیں ہیں۔‘‘صحیح بخاری میں حضرت اُمّ الفضلؓ سے ایک حدیثِ مبارکہ مروی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا ’’مَیں نے رسول اللہﷺ کو مغرب کی نماز میں سورۃ المرسلات کی تلاوت فرماتے سُنا، جس کے بعد آپﷺ نے کبھی نماز نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپﷺ کی رُوح قبض فرمالی‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 4429)۔حضرت اُمّ الفضلؓ سے 130 احادیث مروی ہیں، جن کے راوی عبداللہ بن عباسؓ، انس بن مالکؓ، عبداللہ بن حارثؓ وغیرہ شامل ہیں۔

وفات

حضرت اُمّ الفضلؓ کی تاریخِ وصال میں کچھ اختلاف ہے، تاہم اِس اَمر پر تمام مؤرخین متفّق ہیں کہ اُنھوں نے حضرت عثمان غنیؓ کے دَورِ خلافت میں مدینہ منوّرہ میں وفات پائی۔ اُس وقت اُن کے شوہر، حضرت عبّاسؓ بقیدِ حیات تھے۔ حضرت عثمانؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنّت البقیع میں تدفین ہوئی۔