گلپر میں واقع قدیم تھروچی قلعہ

February 28, 2021

گلپر، آزادکشمیر کے ضلع کوٹلی کا ایک قصبہ ہے۔ یہ کوٹلی شہر کے جنوب مغرب میں تقریباً 10کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گلپر کا ایک تاریخی پس منظر ہے، اس کے گاؤںتھروچی میںایک خوبصورت اور تاریخی قلعہ موجود ہے، جسے 'تھروچی قلعہ کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ، گلپر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی جگہ سے زیادہ دور نہیں۔ گلپر سے یہ 2کلومیٹرکے فاصلے پر ہے اور وہاں تک پہنچنے میںآدھا گھنٹہ لگتا ہے۔

اس قلعے کی تعمیر کے سال کے حوالے سے دو متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک کے مطابق اس قلعے کی تعمیر کشمیر کے آٹھویں سلطان غیاث الدین زین العابدین عرف بڈھ شاہ (بادشاہ) کے وزیراعظم اور فوج کے سپہ سالار ملک مسعود ٹھاکر نے 1425ء میں کروائی جبکہ دوسری کے مطابق اس کی تعمیر 1460ء میں ہوئی۔ قلعہ تھروچی کو تعمیر کرنے کا بنیادی مقصد غلے کی رسد کو یقینی بناکر وادی کشمیر میں وقتاً فوقتاً پڑنے والے قحط سے نمٹنا تھا۔

یہ قلعہ کھڑی پہاڑی پر بنایا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس تک پہنچنے میںکافی دشواری ہوتی ہے۔ پہلے پہاڑی رستے پر چل کر اُوپر جانا پڑتا ہے اور پھرآخر میںسیڑھیاں آتی ہیں جو قلعے کے مرکزی دروازے تک پہنچاتی ہیں۔ قلعے کا مرکزی دروازہ بھی درست حالت میں ہے۔ نیچے وادی سے قلعہ تھروچی کی اونچائی تقریباً ایک ہزار فٹ اور سطح سمندر سے تقریباً 3700 فٹ ہے۔ اس کو آس پاس کے علاقے میںدشمن پر نظر رکھنے اور اس کے حملوںسے بچنے کے لیے تعمیر کیا گیا۔

قلعے سے دور تک وسیع علاقہ دیکھا جاسکتا ہے۔ پتھر کو تراش کر بنائی جانے والی اینٹوں سے قلعے کی فصیل اور برج کی تعمیر کی گئی، جو باہر کی جانب سے آج بھی کافی بہتر حالت میںدکھائی دیتے ہیں۔ کئی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مضبوطی سے کھڑی قلعے کی ویران فصیل اور برج عظمت رفتہ کی یاد دلاتے ہیں، جہاں کبھی پہرے دار گرد و نواح پر نظر رکھا کرتے تھے۔

فصیل میںکمرے بھی بنے ہوئے ہیں مگر اب وہ کافی خستہ حال ہوچکے ہیں۔ یہاں ایک قید خانہ بھی موجود ہے، جو ابھی تک اپنی اصل حالت میںنظر آتا ہے۔ قلعہ تھروچی کی فصیل میںپہرے داروں کے لیے بڑے بڑے سوراخ بھی بنائے گئے تھے تاکہ وہ چاروں اطراف دشمن پر نظر رکھ سکیں۔ قلعے کی فصیل میںوینٹی لیشن کا نظام بھی دفاعی نقطہ نظر کے تحت بنایا گیا تھا، یعنی درمیان میںتکونی شکل میں پتھر ہے اور اس کے دائیںبائیں لمبائی میں پتلے سوراخ ہیں، تاکہ دشمن کے تیر وہاں سے اندر نہ آسکیں۔

اس کی دیواروں میںچراغ رکھنے کے لیے جگہیں بھی بنائی گئی تھیں۔ قلعے کے احاطے میں مرکز کی جانب ایک چبوترا بنا ہوا ہے، جہاںسے غالباً سپاہ سالار اپنی فوج کی کمان کرتے ہوئے انھیں تیار کرتے اور احکامات دیا کرتے تھے۔ وہ بہت زیادہ جنگی سازوسامان کے ساتھ قلعے میں رہا کرتے تھے۔ قلعے میںپانی کے لیے ایک باؤلی بھی بنائی گئی تھی جس میں اب کائی والا پانی بھرا رہتا ہے۔

1809ء میں، رنجیت سنگھ نے تھروچی پر حملہ کیا۔ اس حملے میں منگرالوں کو شکست ہوئی اور یوں یہ ان کی حکومت کا آخری دور ثابت ہوا۔ اس کا دفاع کرنے والے منگرال راجپوت سرداروں میں سردار سمت خان، سردار کرمدی خان ساکن بڑالی، سردار شادمان خان اور سردار ستارمحمد خان شامل تھے۔ تاہم، منگرالوں کی حکومت کا سورج غروب ہونے کے بعد سردار ستار محمد خان کے پڑپوتے کرنل محمود خان نے 11اے کے بٹالین کی کمان کرتے ہوئے 1948ء میں اسے ڈوگرا فوج سے واگزار کرایا۔

1947ء میں تقسیمِ ہند کےبعد کرنل محمود خان منگرال کی سربراہی میں مقامی لوگوں کے ایک دستے نے ڈوگرا افواج کو شکست دی اور ان کا پیچھا کیا۔ ڈوگرا سپاہیوں کاجب تھروچی قلعے میںمحاصرہ کیا گیا تو انھوں نے جموں کی طرف بھاگنے کا فیصلہ کیا۔ قلعہ تھروچی کے مغرب میں دریائے پونچھ کی جانب گھاٹی بنی ہوئی ہے۔ وہاں سے ڈوگرا فوجی نیچے رسیاںڈال کر اترے ، پھر چانگ پور اور خاس گاؤں کے رستے نکلنا شروع کیا اور کچھ نے تو ماحولی دریا کا راستہ بھی اختیار کیا۔

تاہم، منگرال کے دستے نے ڈوگرا افواج کا تعاقب کرتے ہوئے جونا کے قریب ڈبریا کے مقام پر انھیںپکڑلیا، جہاں ان کے درمیان مقابلہ ہوا جس میںڈوگرا فوج کے کئی فوجی مارے گئے جبکہ کچھ افراد جو بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے جموں کی طرف پیچھے ہٹنے میںکامیاب ہوئے۔ یوں منگرالوں کی شان رفتہ کا منہ بولتا ثبوت قلعہ تھروچی ایک بار پھر ان کے پاس آگیا۔

پتھرکی اینٹوں سے تعمیرشدہ قلعہ تھروچی اپنی مضبوطی کے باعث کئی صدیاںگزرجانے کے باوجود آج بھی اپنی جگہ ایستادہ ہے۔ تاہم، مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ قلعہ آزاد کشمیر کے دیگر قلعوںکی طرح زبوںحالی کا شکار ہے۔ بالخصوص اندرونی حصہ کافی زیادہ مٹی کی نذر ہوچکا ہے۔ زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات نے بھی اسے نقصان پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے اس کی دیواریں کہیںکہیںسے منہدم ہوگئی ہیں۔ اس طرح کے تاریخی مقامات کی ازسرِ نو بحالی سے سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔