کمالاتِ عارف

March 21, 2021

سابق سفارتکار عارف کمال جنوری 1947 میں جموں میں پیدا ہوئے۔ اس وقت مستقبل قریب میں بھارت اور پاکستان کی حیثیت سے وجود میں آنے والی مملکتوں کے مراحل تقریباً طے پاگئے تھے۔ ریاست جموں و کشمیر میں ڈوگرہ ہندو مہاراجہ کی عملداری یقیناً متاثر ہونے والی تھی لیکن حالات و واقعات اس قدر خونریز، سنگین اور دور رس ہوں گے اس کا اندازہ کسی بھی ذی حس کو نہیں تھا۔ جوں جوں دو نئی مملکتوں کی آزادی کے دن قریب آتے گئے اس وقت کے شمالی ہندوستان اور خصوصاً پنجاب اور ملحقہ علاقہ جات میں مذہبی اشتعال انگیزی اور شدت پسندی عروج پر پہنچ گئی جس کا منطقی نتیجہ بے پناہ قتل و غارت کی صورت میں نکلا۔ اسی تناظر میں جموں میں ہندو شدت پسند جماعتوں کی طرف سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ عارف کمال کے والد جو ریاست جموں و کشمیر کے صوبہ جموں کے پہلے مسلمان ڈاکٹر تھے بھی اپنی کوٹھی چھوڑ کر اندرون جموں کے پرانے مسلم اکثریتی محلے تالاب کھٹیکاں منتقل ہوگئے جہاں وہ اپنی دانست میں خود کو محفوظ تصور کرنے لگے۔ اس علاقے کے نزدیک ہی مرحوم ایئر مارشل اصغر خان کے چچا جنرل سمندر خان کا گھر بھی واقع تھا جس کی وجہ سے بھی لوگوں میں ایک قسم کے احساس تحفظ کاپیدا ہونا ایک یقینی امر تھا مگر حالات بد سے بدتر ہوتے گئے یہاں تک کہ ہندو بلوائیوں کے حملے اس قدر بڑھ گئے کہ مسلمانوں کی نقل و حمل کو صرف ان کے اکثریتی علاقوں تک محدود کردیا گیا۔ پھر ان بستیوں پر محاصرے سخت ہوتے گئے اور آئے روز حملے کئے گئے جس سے لوگوں کے حوصلے ٹوٹ گئے اور وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے،اس دوران فوج اور بلوائیوں نے قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا کہ لاکھوں لوگ قتل اور زخمی ہوئے اور خواتین کے ساتھ بےحرمتی کی گئی۔ عارف کمال کا خاندان اولین نقل مکانی کرنے والوں میں شامل ہوامگر دوران سفر قافلے پر حملہ ہوا۔ رات کے اندھیرے میں انکی والدہ نے کمال کی آیا رمضانی کی مدد سے جس بہادری اور شجاعت سے ننھے بیٹے کے ہمراہ کھیتوں اور کھلیانوں سے چاند کی روشنی میں پاکستان کی طرف سفر کیا وہ انتہائی قابل داد و تحسین ہے۔ جموں میں مسلمانوں کا قتل عام ایک بہت بڑا واقعہ تھا جس سے وہاں کی مسلم اکثریت کو راتوں رات اقلیت میں تبدیل کردیا گیا مگر یہاں اس حقیقت کو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اسی طرح کے مگر چھوٹے واقعات کے نتیجے میں آزاد کشمیر کی غیر مسلم اقلیت کو بھی نقل مکانی کرنی پڑی۔

پاکستان میں عارف کمال پہلے شعبہ تدریس اور پھر فارن سروس سے تیس سال سے زائد عرصہ تک وابستہ رہے،اس دوران انہوں نے دنیا کے مختلف خطوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور بالآخر بحیثیت سفیر ریٹائر ہوگئے۔ اس کے بعد وہ ایک دہائی تک نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں ریسرچ اور تدریس سے وابستہ رہے جہاں مجھے کئی بار ان کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔حال ہی میں آپ کی چنیدہ یادداشتوں پر مبنی کتاب Reminiscences of My Wanderings شائع ہوئی۔ اس میں وہ اپنے سفارتی کیریئر سے منسلک واقعات مثلاً موجودہ خلیجی ریاستوں کے ترقی کے سفر سے لے کر 1980کی دہائی کی سوویت یونین اور افغانستان میں روس کے انخلا تک کئی اہم بین الاقوامی موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے ذاتی حالات و واقعات کو بھی بیان کرتے ہیں جو انتہائی دلچسپ اور پر از معلومات ہیں۔ کمال صاحب کئی اہم واقعات اور موضوعات کو بیان کرتے وقت کسر نفسی یا ڈپلومیسی سے کام لے کر انتہائی اختصار برت رہے ہیں مثلاً وہ دو سو سال اور سات پشتوں سے آباد جموں سے اپنے خاندان کی ہجرت اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے واقعات کو چند سطروں میں بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح دوران تعلیم میرپور کالج یا پنجاب یونیورسٹی کی یادداشتوں کا کافی احتیاط سے ذکر کرتے ہیں جس سے مزید تشنگی بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح کینیڈا میں اپنے سفارتی کیریئر کے دوران ان پر یہ عقدہ بھی کھل جاتا ہے کہ کس طرح پاکستانی سفارتی عملے کے ارکان جن میں سفراء بھی شامل تھے وہاں کی شہریت کے حصول کیلئے کوششیں کرتے رہے حتیٰ کہ ایک سفیر صاحب تو نامزدگی سے پہلے ہی کینیڈا کی امیگریشن کیلئے درخواست دے چکے تھے۔ یہ کتاب پاکستانی ڈپلومیٹس کی جانب سے لکھی جانے والی کتابوں میں ایک قابل قدر اضافہ ہے جس کا ترجمہ اردو زبان میں ضرور ہونا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہوسکیں۔