زمیں سے ہر کوئی اونچا دکھائی دیتا ہے

March 27, 2021

ہمارے معاشرے میں جرائم کی رفتار جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس سے دو ہی نتیجے اخذ کئے جاسکتے ہیں پہلا یہ کہ انتظامیہ اور حکومت اس رفتار کو خاطر میں نہیں لاتی لہٰذا ان کے نزدیک کوئی تشویشناک بات نہیں۔ دوسرا نتیجہ یہ کہ جرائم کو ختم کرنے کے ذرائع انتظامیہ کے پاس نہیں ہیں لہٰذا وہ بے بس ہے۔ اور اس پر طرہ یہ کہ جرائم کی نوعیت میں بھی فرق آچکا ہے۔ چوری، لوٹ مار، ڈکیتی، قتل و غارت تو روزمرہ کے جرائم ہیں اب ان میں جنسی جرائم بھی نمایاں ہو رہے ہیں، جرائم میں اضافے کی وہ اخلاقی قدریں ختم ہوچکی ہیں جن قدروں کے حوالے سے اخلاقیات کا رونا رویا جاتا ہے، ہم معاشرتی تبدیلیوں کو محسوس تو کرتے ہیں لیکن ان کا تجزیہ کرنے کو تیار نہیں۔ ہماری فکر کے ڈانڈے ماضی سے ملتے ہیں حال کو دیکھنے اور پرکھنے کی جرأت نہیں یہی وجہ ہے کہ آپ گفتگو اور تحریر میں مبہم اور غیر یقینی باتیں پائیں گے۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ معاشرے کی تنظیم نو کے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ان کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں کہ معاشرے کی تنظیم نو میں قدیم نظریات اور تصورات کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ کہ اب معاشرے میں اصلاحات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ تنظیم نو کے ضمن میں بنیادی بات تو یہ ہے کہ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ معاشرتی زندگی کی بنیاد نظریات نہیں بلکہ ’’پیداواری رشتے‘‘ ہیں۔ معاشرے کی ہیئت اس کی پیداواری صلاحیت کے مطابق نہیں ہے ہمارے ہاں گزشتہ باسٹھ سال کے دوران پیداوار کے ذرائع اور اس کی تقسیم میں بہت تبدیلی آچکی ہے لیکن ہم اس تبدیلی کو معاشرے کی پرانی ہیئت پر اثر انداز نہیں ہونے دیتے ہم صنعت، تجارت اور زرعی پیداوار کے نئے طریقوں اور انداز کو بحیثیت حقائق نہیں لیتے۔ مثال کے طورپر ہم چوربازاری، رشوت اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف بہت کچھ کہتے ہیں۔ لیکن یہ سوچنے کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے کہ چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی سرمایہ پرست معیشت کے لازمی پہلو ہیں، اگر آپ سرمایہ دارانہ نظام معیشت برقرار رکھنے پر تیار ہیں تو پھر چور بازاری، مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی لعنت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں ایسے سیاستدانوں اور رہنمائوں کی کمی نہیں جو ان معاشرتی برائیوں کو اخلاقیات کی تعلیم سے ختم کرنا چاہتے ہیں یہ دراصل معاشرتی حقائق سے چشم پوشی کرنے کے مترادف ہے ۔وہ سرمایہ دار اور جاگیرداروں کے طبقوں کی حیثیت قائم رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ خود سرمایہ دارانہ اورجاگیردارانہ ذہنیت کے مالک ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو جاگیرداری کے خلاف اپنے دلائل دیتے ہوئے اکثر کہا کرتے تھے کہ روس نے زار کے بعد یہ کام انتہائی مختصر عرصے میں کرلیا تھا تو بھارت ایسا کیوں نہیں کرسکتا۔

ہمارے ہاں کے قائدین اور رہنمائوں کے لئے سائنٹفک تنظیم نو کا لفظ انتہائی تکلیف دہ بن گیا ہے دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے کی تبدیلی کے خواہاں نہیں، یہی وہ صاحب اثر ہیں جو تنظیم نو کے لفظ سے بدکتے ہیں۔ یہ عام لوگوں کی بھلائی ہرگز نہیں چاہتے بلکہ یہ لوگ ذاتی ملکیت کو زندگی کا محور سمجھتے ہیں اور ملکیت کے زمرے ہی میں اخلاق آجاتا ہے اور اخلاق بھی ذاتی ملکیت بن گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم معاشرتی زندگی کے اقتصادی اور مادی عوامل کو زیر بحث لائیں معاشرتی بُرائیوں اور اُنکے اسباب کا سائنٹیفک مطالعہ کریں اور حقیقت پسندانہ نگاہ سے معاشرتی زندگی کو دیکھیں جب تک میں، آپ اور ہم سب ایسا نہیں کریں گے اُس وقت تک معاشرے میں انتشار موجود رہے گا۔

میرے حساب سے سائنٹیفک تحقیق کا انحصار کسی مسئلے کے بارے میں ذاتی نقطہ نظر تجزیے، تجربے یا احساس پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ تحقیق، ریسرچ اور دستیاب مواد کو سائنسی نقطہ نظر سے زیر تجزیہ لانے کا عمل ہے۔ ۔یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا ہے کہ پاکستان کی معاشی، سماجی، مذہبی، سیاسی اور اقتصادی و معاشرتی زندگی میں تیزی سے پھیلتی ہوئی کرپشن سے مقتدر حلقے بھی نہیں بچ سکے کہ طاقت بے حساب ہے، اس لئے اس کی کرپشن کی بھی کوئی حد نہیں کہ کون اپنے ’’سیاسی کردار‘‘ سے دستبردار ہونا چاہے گا جب کہ اس کردار کے ساتھ وافر مال و دولت وابستہ ہو۔ میرے حساب سے جب سیاسی اور معاشی مفادات یکجا ہو جائیں تو فوج کا اپنی بیرکوں میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اب آیئے ایک حکایت سنئے۔ یاد رہے کہ اس حکایت کا میرے کالم سے ہرگز کوئی تعلق و واسطہ نہیں۔ ایک ایسے ہی انتشار زدہ معاشرے اور لہولہان ملک کا ’’بادشاہ‘‘ جنگل میں شکار کھیلنے گیا۔ اس نے ایک خوبصورت ہرنی کا نشانہ لیا جو خطا گیا۔ بولا ’’بچ گئی‘‘ پھر ایک خرگوش کا نشانہ لیا وہ بھی خطا ہوگیا بولا ’’بچ گیا‘‘ اتنے میں پہاڑ سے ایک بھاری پتھر لڑھکا، قریب تھا کہ بادشاہ اس پتھر کے نیچے آکر کچلا جاتا مگر وہ تیزی سے پہلو بچا گیا اتنے میں کہیں سے آواز آئی ’’بچ گیا‘‘……

لوگ بچتے ہیں محبت کی پریشانی سے

میں نے سیکھا ہے محبت میں پریشان ہونا