جدید ٹیکنالوجی

April 06, 2021

بیگم ناجیہ شعیب احمد (کراچی)

گزشتہ کچھ عشروں میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں بے نظیر ایجادات و اختراعات ہوئیں، جن کی وجہ سے گھروںاور کام کرنے کی جگہوں کے علاوہ، طب، ٹرانسپورٹ، مواصلات، دفاع اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بہت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان ایجادات نے دنیا بھر کے ممالک کی سیاسی، معاشی اور سماجی ترقی میں بہت زیادہ مدد کی ہے۔ موبائل فون کے بے تحاشا استعمال اور انٹرنیٹ تک رسائی نے نوجوانوں کے لیے رابطے کے ذرائع بدل دیےہیں اور یہ ان کے لیے ایک خاص سہولت بھی ہے۔ گرچہ انٹرنیٹ تک رسائی نے ہر ایک کو بااختیار بنا دیا ہے لیکن نوجوانوں کے لیے معاشرتی زندگی میں حصہ لینے کے مواقع کچھ زیادہ بڑھا دیے ہیں۔

پاکستان باصلاحیت نوجوانوں سے مالا مال ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیںلیکن ہر وہ شے جو ان کو پرکشش لگتی ہے وہ فائدے اور نقصانات جانے بغیر اس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اس کی ابتداء چھوٹے بچوں کو خاموش کرنے کے لیے موبائل فونز پر ویڈیوز دکھانے سے ہوتی ہے۔ اس کےبے دریغ استعمال نے جہاں نوجوانوں کو جسمانی طور پر کمزور اور سست اور کاہل بنا دیا ہے وہیں ذہنی صلاحیتوں پر بھی بری طرح اثرانداز ہو رہا ہے۔ ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ جیت میں بدلا جاسکتا ہے، مگر تہذیب و ثقافت کی شکست پوری نسل کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔

جس طرح چاقو کوئی بری چیز نہیں، کلہاڑی کوئی دردناک چیز نہیں۔ لیکن جب ہم ان چیزوں کو اپنے مصرف میں لانے کی بجائے ان سے غلط کام لینا شروع کردیتے ہیں، تب ان میں منفی رخ پیدا ہوجاتا ہے،جو چاقو سبزی ،پھل وغیرہ کاٹنے کے لئے استعمال ہوتا ہے، کلہاڑی لکڑی کاٹنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اسے بطورِ ہتھیار کسی کی گردن کاٹیں، کسی بے گناہ کی جان سے کھیلیں یا کسی کا خون بہائیں تو اس میں ان چیزوں کی کوئی غلطی نہیں بلکہ اس کا غلط استعمال کرنے والا ہی اصل قصوروار ہے۔

اسی طرح جدید ٹیکنالوجی خود سے کوئی خطرناک چیز نہیں، جب ہم اسے اپنے منفی مقاصد کے حصول کے لیےاستعمال کرتےہیں، تب اس کے مفید اثرات ناپید ہوجاتے ہیں اور مضر اثرات معاشرے میں ناسور بن کر پھیل جاتے ہیں، لہٰذا ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ان سہولیات سے ہماری نوجوان نسلوں کو صرف اور صرف معاشرے کی ترقی اور نشوونما کے کاموں میں استعمال کرنے کی تلقین و تاکید کی جائے۔

دور حاضر کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے والدین، کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بچوں، خصوصاََ نوجوانوں کو ضرورت سے زیادہ موبائل فون نہ دیںان پر کڑی نظر رکھیں۔

خود بل گیٹس نے اپنے بچوں کو ابتدائی عمر میں کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ سابق امریکی صدرباراک اوباما کی بیوی نے بھی اپنے بچے کو پندرہ سال کی عمر تک کمپیوٹر کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا تھا۔ یہ ہم ہیں جو غیروں کی تقلید کرنے کے چکر میں اپنی نسلوں کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔ جب کہ آج کے جدید نظامِ زندگی سے اکتا کر لوگ اب اپنی سابقہ طریقِ زندگی کے لیے ترس رہے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت حال ہی میں اٹلی میں دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد کا اپنے قدیم گھریلو سسٹم کی بحالی کے لئے احتجاج کرنا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کی نت نئی ایجادات،اس کی بڑھتی ہوئی مانگ اور استعمال کی وجہ سے دنیا اگرچہ ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے لیکن انسانی صحت پر اس کے بڑھتے ہوئے مضر اثرات بھی تیزی سے سامنے آرہے ہیں، موبائل فون، انٹرنیٹ، ملٹی میڈیا اور ٹیلی ویژن کے بڑھتے ہوئے استعمال پر برطانیہ میں سامنے آنے والی حالیہ ریسرچ کے نتائج نے پوری دنیا کو چونکا کے رکھ دیا ہے۔

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ 30 سال یعنی 2045ء میں دنیا بھر میں 5 ارب انسانوں کی دور کی نظر خراب ہوجائے گی جو کہ پوری آبادی کا نصف ہوگی۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 2 ارب افراد کی دور کی نظر خراب ہے، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کی دور کی نظر کی خرابی اور اندھے پن کی وجوہات کم روشنی میں کام کاج، کمپیوٹر، ٹی وی اور موبائل کی اسکرین پر زیادہ وقت صرف کرنا شامل ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق انٹرنیٹ کے حد سے زیادہ استعمال سے نوجوان اس حد تک عادی ہو جاتے ہیں کہ ایک دن کے انٹرنیٹ استعمال نہ کرنے سے ان کی پریشانی اور اعصابی تناؤ بڑھ جاتا ہے، جبکہ مطالعہ یعنی کتابوں کا مطالعہ ہر عمر میں ذہنی امراض سے بچاتا ہے ۔انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کو اس کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا جانا چاہیئے۔

جدید ترین دور میں انٹرنیٹ کا حلقہ اتنا وسیع تر ہو چکا ہے کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا انٹرنیٹ نے ایک متوازی دنیا قائم کر لی ہے۔نوجوان طالب علم اسے معلومات کے حصول کے لیے استعمال کریں اور یہ ان کے لیے نئے دوست ڈھونڈنے میں بھی معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے اس کے ذریعے آمدنی بھی ہو سکتی ہے ،کسی بھی شعبے میں تحقیقات کرنے والوں کے لیے تو یہ کسی نعمت سے کم نہیں اس کی مدد سے آپ نہ صرف اپنے کام بلکہ اپنی ذات کو بھی بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔

یاد رہے !انٹرنیٹ ہی کی بدولت خبروں کا بہاؤ تیز اور معلومات کاحصول آسان ہوگیا ہے، لیکن بدقسمتی سےہمارے نوجوانوں کی اکثریت انٹرنیٹ کو سستی تفریح کے لیے استعمال کررہی ہے جو پریشان کن امر ہے۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہمارے اعتقادات کی کمزوری، اسلامی اقدار سے روگردانی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں، جس کے بعد وہ تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرسکیں۔

جب یہ اقدار ان کے ذہنوں میں رہیں گے، تب وہ اسلامی قوانین پر عمل کرنے کے لئے وہ تیار ہو جائیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوکر جب وہ عملی میدان میں داخل ہوں گے، تب ثقافتی یلغار انہیں منحرف نہیں کرسکے گی۔