یہ کسی ایک استاد کا مسئلہ نہیں

April 23, 2021

ملکی سطح پر کئی پروگراموں اور اقوامِ متحدہ کے کئی تعلیمی منصوبوں کے سربراہ رہنے والے سید ظہیر احمد گیلانی لکھتے ہیں ’’آپ کے ہر کالم کی طرح یہ کالم بھی معلومات کا خزانہ اور درد کی کسک لئے ہوئے تھا۔ اگرچہ یہ کالم گورنمنٹ کالج لاہور کی ایلومینائی ایسوسی ایشن کے انتخابات کے حوالے سے لکھا گیا مگر اس کالم نے ادارہ جاتی اور قومی تنزلی کا نقشہ سا کھینچ کر رکھ دیا۔ ڈسکہ ہنرمند اور باہمت لوگوں کا شہر ہے حالیہ ضمنی الیکشن نے (قطع نظر اس کے کہ کون جیتا اور کون ہارا) ڈسکہ کو ایک نئے استعارے کے طور پر بہت شہرت دی ہے۔ جب سارا ملک ہی ڈسکہ وائرس میں مبتلا ہو تو بھلا گورنمنٹ کالج لاہور اس وبا سے کیسے بچ سکتا ہے؟ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ گھمبیر صورتحال پرانے طلبا کی انجمن میں پیش آئی جن کی اکثریت شاید اچھے وقتوں میں کالج سے فارغ التحصیل ہوئی۔ تنزلی اصل میں ایک کینسر ہے جو ملک کے کسی بھی شعبے میں داخل ہو جائے تو آہستہ آہستہ ملک کے رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے۔ ہم سب کو اس موذی کے چنگل سے وطن کو چھڑانے کے لئے ہمہ وقت چوکنا اور تیار رہنا پڑے گا، محنت کرنی پڑے گی ورنہ مرض لاعلاج ہوتا چلا جائے گا، مشتری ہوشیار باش‘‘۔

میں عام طور پر سیاست پر لکھتا ہوں مگر سیاست سماج سے جڑی ہوئی ہے، مختلف سماجی مسائل کی نشاندہی کرکے سیاست دانوں کی توجہ مرکوز کروانے کی کوشش کرتا ہوں کہ شاید میرے ملک کا بھلا ہو جائے، زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد مجھے مسائل بتاتے ہیں، توجہ دلاتے ہیں تاکہ حکمران اس طرف متوجہ ہو سکیں۔ دنیا کے کئی اداروں میں ٹریننگ دینے والے انگریزی کے استاد پروفیسر اجمل خان انگریزی کے علاوہ اردو پر بھی خوب دسترس رکھتے ہیں، وہ اپنے تبصرے میں فرماتے ہیں ’’زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن‘‘ آپ کے گزشتہ کالم کے پہلے آدھے حصے سے مکمل اتفاق ہے مگر اگلے آدھے حصے پر کچھ کہنے کو دل چاہتا ہے۔یہ دیومالائی قسم کا طلسماتی ادارہ جس میں آپ کے مذکورہ عظیم لوگوں کے ساتھ ساتھ پطرس بخاری اور کنہیا لال کپور جیسے لوگ خدمات انجام دیتے رہے، اب زاغوں کے تصرف میں چلا گیا ہے یہ دھاندلی جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں کون کروا رہا ہے؟ اسی ادارے کی فارغ التحصیل ’’عظیم‘‘ ہستیاں، پچھلے دو عشروں سے یہاں کی پروڈکٹ کیا ہے؟ سارے ملک کی کریم اکٹھی کرکے یہ ادارہ آپ کو پچھلے بیس برسوں سے ایک بھی ڈھنگ کا لیڈر، سیاست دان، مذہبی مفکر، استاد، مصنف، شاعر اور افسر نہیں دے سکا۔ لگ بھگ دوسو کے قریب ایسے لوگوں کو ٹریننگ دینے اور پڑھانے کا اتفاق ہوا جو اس ادارے کے پوسٹ گریجویٹس تھے، رٹے رٹائے طوطے ہی ملے، زمانے کا ادراک اور شخصیت سازی ناپید ہو چکی، مستثنیات بھی موجود ہوں گی مگر اب یہ درسگاہ جو کبھی درگاہ کا درجہ رکھتی تھی، ایک کمرشل ادارہ بن چکی ہے۔ اب یہاں کے فارغ التحصیل سیاست دانوں اور افسران کا حلیہ سب کے سامنے ہے‘‘۔ پروفیسر اجمل خان نے آخر میں ایک نوٹ بھی لکھا ہے ’’مجھے پتا ہے آپ میں بہت برداشت ہے، اس لئے تلخ باتیں لکھ دی ہیں‘‘۔

پروفیسر صاحب! آپ کی باتیں بالکل تلخ نہیں ہیں، آپ نے تو صرف گورنمنٹ کالج لاہور کے دو عشروں کی بات کی ہے، میں تو اکثر قوم کے چار عشروں کی بات کرتا ہوں کہ جو بچے ضیائی مارشل لا کے بعد پیدا ہوئے وہ واقعتاً قدآور ثابت نہیں ہوئے، ایسا لگتا ہے جیسےچالیس برسوں سے دھرتی بانجھ ہو گئی ہو مگر پھر بھی

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

اسی دوران پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں کے کچھ اساتذہ نے اپنے مسائل کے حوالےسے رابطہ کیا ہے، کسی نئے حکم نامے کے تحت کچھ اساتذہ کو ادارے چھوڑنے پڑ رہے ہیں، یہ مرحلہ ان کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ شعبہ تعلیم سے متعلق معلومات رکھنے والے دوست انور خان لودھی سے پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ کسی ایک استاد کا مسئلہ نہیں بلکہ ساڑھے نو سو اساتذہ کا مسئلہ ہے۔ 2002میں بہت سے کالجز کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا، اس کے بعد وی سی بادشاہ بن گئے، اختیارات کلی طور پر ان کے ہاتھ لگ گئے حتیٰ کہ فنانس کا شعبہ بھی ان کےسپرد ہوگیا۔ خیر جب کالجز کو یونیورسٹیاں بنایاگیا تو وہاں موجود کالج کیڈر یعنی ایچ ای ڈی کے اساتذہ کو یہ آپشن دیا گیا کہ وہ اپنی ملازمت یونیورسٹی میں شفٹ کروالیں، اکثر نے ایسا کرلیا، باقی ماندہ اساتذہ ایچ ای ڈی کے پینل پر ہی رہے۔ اب 19برس بعد ایچ ای ڈی اپنے تمام اساتذہ کو یونیورسٹیوں سے واپس بلا رہی ہے۔ اس سے بہت بڑا خلا پیدا ہو گا، ان اساتذہ کی کھپت انہی شہروں میں کیسے ہو سکے گی؟ اگرچہ اساتذہ کو ڈیپوٹیشن پر یونیورسٹیوں میں جانے کی اجازت ہوگی۔جن یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو یہ مسئلہ درپیش ہے ان میں جی سی یو لاہور، یونیورسی آف سرگودھا، جی سی یوفیصل آباد، یونیورسٹی آف ایجوکیشن، ایل سی یو لاہور، ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ، ویمن یونیورسٹی ملتان اور صادق ویمن یونیورسٹی بہاولپور کے علاوہ چند اور یونیورسٹیاں بھی ہیں۔

19سال گزارنے کے بعد اب یکم جولائی 2021 سے ان اساتذہ کو یونیورسٹیاں چھوڑنا پڑیں گی۔ اس کے دو تین حل ہیں، نمبر ایک یونیورسٹیاں ان اساتذہ کو اپنےہاں ضم کر لیں کیونکہ 19برسوں کی رفاقت کے باعث ان اساتذہ کا یونیورسٹیوں سے لگائو ہو چکا ہے۔گورنر پنجاب تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو بلوا کر کوئی عمدہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ نمبر دو اس حکم نامے کو دو سال کےلئے موخر کر دیا جائے تاکہ اساتذہ اپنی شفٹنگ کے بارے میں ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔ نمبر تین یہ کہ ایچ ای ڈی معاملات کو جوں کاتوں چلنے دے اگر وہ پانچ سال کیلئے ایسا کر دے تو یہ اساتذہ جہاں پڑھا رہے ہیں وہیں سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ ورنہ بقول منیر نیازیؔ

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا