غربت سے نجات

April 30, 2021

شہباز شریف جیل کی سختیوں کو جھیلنے کے باوجود پُرعزم اور پُرامید محسوس ہوئے۔ جیل سے رہائی کے بعد اُن سے ملاقات میں اُن کے سامنے ایک ہی سوال رکھا کہ وطن عزیز کی معاشی حالت بتدریج مخدوش ہوتی چلی جارہی ہے، آپ ملک کو اِس گرداب سے نکالنے کے لئے کیسے پُرامید ہیں؟ دہائیوں کی محنت دو ڈھائی برسوں میں ضائع ہو چکی ہے مگر اُن کے جواب میں ناصرف عزم تھا بلکہ حکمت عملی بھی۔ میری ہمیشہ سے یہ رائے رہی ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے ساتھ غیرمعمولی وابستگی رکھتے ہیں اور اُن سے حالیہ ملاقات میں یہ تصور مزید مضبوط ہوا کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ نواز شریف کی قیادت سے ہٹ کر کوئی اقدام کریں۔ شہباز شریف کے نزدیک یہ بالکل واضح ہے کہ معاشی میدان میں کارکردگی سے ہی معاشرے کا ہر مسئلہ منسلک ہوتا ہے اور کامیابی کے ثمرات عوام تک منتقل ہو رہے ہوںتو یہی حقیقی کامیابی ہوتی ہے۔ اِس راہ میں مسائل آنا، مشکلات سے نبرد آزما ہونا معمول ہے اور قیادت کے لئے اس معمول کے عمل پر فتح پانا ہی دراصل حقیقی کامیابی ہے۔ معاشی اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کسی حکومت کی حقیقی کامیابی کا بہترین پیمانہ عوامی احساسات و واقعات ہی ہوتے ہیں۔ ماضی میں اگر ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لئے لائن نہ لگتی رہی ہو، شناختی کارڈ دکھانا یا انگوٹھوں پر نشان لگوانا امر لازم نہ رہا ہو بلکہ چینی ویسے ہی ملتی رہی ہو تو ایسا دور بلاشبہ اُس دور سے بدرجہا بہتر ہے کہ جس میں یہ تمام قباحتیں سامنے آرہی ہوں اور ان کی وجہ سے معاشی کارکردگی اور معاشی زبوں حالی آشکار ہو جاتی ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کامیاب معاشی پالیسی اپنے شہریوں کی زندگی کو بتدریج بہتر زندگی کی طرف لے جاتی ہے مگر اس کے لئے حکمت عملی اور سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سیاسی عزم اور حکمت عملی کی بہترین مثال چین کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ خیال رہے کہ چین کی حکومتوں نے ایک حکومت یا لیڈر کے جانے کے بعد اس کی محنت کو اکارت نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے سفر کا آغاز وہیں سے شروع کیا کہ جہاں ان کے کسی پیشرو نے چھوڑا تھا۔ تمام ادارے بھی یکسو ہو کر حکومت کا ساتھ دیتے رہے تاکہ کسی کو گرانے یا منصب پر بٹھانے کی سازشوں کی بجائے حقیقی مقاصد کو حاصل کیا جائے اور ملک ترقی کرتا چلا جائے۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ 25فروری 2021کو چین کے صدر شی نے چین کی غربت کے خلاف فتح کا اعلان کردیا، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ انقلاب کے بعد غربت پر فتح پا لینے کا دن چین کی قومی زندگی میں انقلاب کی کامیابی کے دن کا ہمسر ہے۔ جیسا کہ میں نے اس سے قبل ذکر کیا کہ اپنے سے پیشتر حکمران نے جتنا فاصلہ طے کر لیا تھا مزید سفر اس کے آگے ہی سے طے کیا گیا۔ چین میں 1970کی دہائی کے آخر میں یہ تصور بہت مضبوطی سے قائم ہو گیا تھا کہ چینی اگر اپنی افرادی قوت اور قومی وسائل کو درست انداز میں استعمال کریں تو اس بہت بڑی آبادی کو بھی غربت کی سطح سے نکال سکتے ہیں۔ جب چین کے موجودہ صدر 2012میں اقتدار میں آئے تو انہوں نے اپنی حکومت کی بنیادی ترجیح اس کو قرار دیا کہ چین کے عوام کو غربت سے نکالتے ہوئے خوشحالی کی جانب منتقل کرنا ہے۔ اقوام متحدہ بھی چین کی ان سرگرمیوں کا بغور جائزہ لے رہی تھی اور اس نے چین میں غربت کے خاتمے کے لئے 2030کا سال مقرر کر رکھا تھا مگر جہاں پر عزم موجود ہو وہاں پر آخری تاریخ کا انتظار نہیں کیا جاتا ہے اسی لئے چین نے یہ ہدف کم و بیش دس سال قبل ہی حاصل کر لیا۔

چین میں اس دوران سات سو ستر ملین افراد کو غربت کی تکلیفوں سے نجات ملی، خیال رہے کہ دنیا میں اس دوران صرف تنہا چین نے عالمی غربت میں سے 70فیصد کا خاتمہ کیا جب کہ باقی پوری دنیا کا اس خاتمے میں حصہ صرف 30فیصد رہا۔ چین کے موجودہ صدر کے 2012میں اقتدار میں آنے سے لے کر ان کے غربت پر فتح پانے کے اعلان تک 98.9ملین افراد کو غربت سے نجات دلائی گئی۔ کسی بھی ملک میں ایک حساس ترین مسئلہ اس ملک میں بسنے والے مختلف تہذیبی و ثقافتی پس منظر کے گروہوں کو مطمئن رکھنا ہوتا ہے اور ان میں بھی خاص طور پر ان گروہوں کو جو تعداد میں دیگر گروہوں سے کم ہوتے ہیں تاکہ کسی قسم کا احساس محرومی جنم نہ لے سکے۔ چین میں ایسے 28گروہوں کی شناخت کی گئی پھر صدر شی نے اس پر ذاتی توجہ دی کہ کوئی ایسا اقدام نہ ہو جائے کہ جس کی وجہ سے قوموں میں احساسِ محرومی رچ بس جاتا ہے۔ چنانچہ 28علاقائی گروہوں کو خصوصی توجہ کا مرکز بنایا گیا، ان میں سے اکثریت مختلف دیہات یا بڑے شہروں سے زیادہ فاصلے پر مقیم ہے مگر ان سب دشواریوں کے باوجود ان تمام گروہوں کو بھی ترقی دی گئی اور اسی سبب سے گزشتہ آٹھ برسوں میں 832کاؤنٹیز اور ایک لاکھ 28ہزار دیہات کو ہدف بنایا گیا جو مقصد اقوام متحدہ کے مطابق اٹھارہ برسوں میں حاصل ہونا تھا وہ 8برسوں میں حاصل کرکے غربت پر فتح پانے کا اعلان کر دیاگیا۔ غربت کو ماضی کا حصہ بنا دینے سے معاشرے میں موجود ہر قسم کی برائیوں کے انسداد کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے اور یہی ہدف ہونا بھی چاہئے۔ چین کی یہ کامیابی پاکستان کیلئے بھی مشعل راہ ہے۔ ہمارے لئے یہ بہت مناسب ہوگا کہ معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غربت میں کمی لانے کے چینی تجربہ سے فائدہ اٹھائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)