امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی

May 02, 2021

کورونا کی تباہ کاریوں کے دوران لاہور سے امریکہ روانہ ہوئے تو حسب ِ معمول ایئر پورٹ پر افراتفری کا عالم تھا، لمبی قطاروں میں لگے مسافر عملے کو کوس رہے تھے جبکہ ایئر پورٹ ملازمین اپنی مقدور بھر کوشش میں تھے کہ مسافر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جائیں۔ دوحہ کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر دنیا بھر سے مسافر آ جا رہے تھے مگر انتظامات نہایت عمدہ تھے۔ چودہ گھنٹے کی تھکا دینے والی پرواز کے بعد امریکہ کے شہر بوسٹن پہنچے تو خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوا، امیگریشن اور دوسرے عملے کا رویہ انتہائی دوستانہ تھا اور اس کی بڑی وجہ موجودہ صدر جوبائیڈن کی امیگرینٹ فرینڈلی پالیسی ہو سکتی ہے۔

امریکہ دنیا کا طاقتور اور امیر ترین ملک ہے جہاں لوگوں کی اکثریت چھوٹے یا درمیانے سائز کے گھروں میں رہتی ہے۔ یہ لوگ ہفتے میں پانچ یا چھ روز خوب محنت کرتے ہیں اور چھٹی کے دن اسپورٹس یا سفر و تفریح میں صرف کرتے ہیں۔ اسکولوں کالجوں کے تمام طلبا و طالبات جزوقتی نوکریاں کر کے اپنے خرچے پورے کرتے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والوں کیلئے یہ بات اچنبھے کا باعث ہو گی کہ امیر امریکی بھی اپنے گھروں کا سب کام خود کرتے ہیں اور شوفر یا ڈرائیور گنتی کے چند لوگ افورڈ کر سکتے ہیں۔

دورہ امریکہ کے دوران مختلف ریاستوں میں جانا ہوا ہے۔ کمیونٹی کی متعدد تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ نیویارک میں ہماری متحرک قونصل جنرل عائشہ علی اور اقوام متحدہ میں ہمارے سدا بہار ایمبیسڈر منیر اکرم سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں جبکہ واشنگٹن میں پاکستان کے انتہائی قابل سفیر ڈاکٹر اسد منیر سے پاک امریکہ تعلقات پر گفتگو ہوئی۔ نئی امریکی حکومت کے پاکستان کے ساتھ موجودہ اور مستقبل کے تعلقات اور توقعات پر بھی سفیر پاکستان نے تفصیل سے روشنی ڈالی۔ واشنگٹن میں قیام کے دوران چند امریکی تھنک ٹینکس میں بھی جانا ہوا اور محسوس ہوا کہ امریکی افغانستان سے اپنی فورسز نکالنے کے بعد اس خطے کی صورتحال سے متعلق تجسس اور فکرمندی کا شکار ہیں۔

امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی معاشی لحاظ سے کافی بہتر نظر آتی ہے تاہم آپس کی لڑائیوں اور سیاسی گروہ بندیوں نے انہیں متحد نہیں ہونے دیا۔ پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے پاکستانی ذات، برادری، علاقائی، مذہبی اور سیاسی گروہ بندی کا شکار ہیں، ان کی شامیں اور ویک اینڈ سیاسی و مذہبی تقریبات یا پھر اپنے دیس کے ٹی وی چینلز کے سامنے بسر ہوتی ہیں جبکہ امریکہ میں پروان چڑھنے والی نئی نسل ان مشغلوں اور مصروفیات سے دوری اختیار کئے ہوئے ہے جس کی وجہ سے والدین اور بچوں میں پیار، الفت اور قربت ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ امریکہ آنے والے پاکستانی تارکین وطن نے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی بہتر بنانے کے لئے ایک انجانے ملک میں بے انتہا محنت کی اور خوشی کی بات ہے کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اس معاشرے میں اپنا ایک مقام بنا چکے ہیں۔ امریکہ میں اب تک میں جن تقریبات میں گیا ہوں وہاں مردوں کے ساتھ خواتین تو موجود تھیں مگر نوجوان بچے اور بچیاں بہت کم نظر آئے۔ حاضرین کی اکثریت پاکستان کے حالات و واقعات پر گفتگو کرتی نظر آئی جو یقیناً اچھی بات ہے مگر ان محب وطن پُرجوش پاکستانیوں کو اس سسٹم میں بھی ایکٹو ہونا چاہئے جس میں نہ صرف انہیں بلکہ ان کی آئندہ نسلوں کو بھی رہنا ہے۔ ہماری کمیونٹی کو چاہئے امریکہ کے پولیٹیکل سسٹم میں متحرک ہو، اپنے علاقے کے ہسپتالوں اور اسکولز کے بورڈز میں شمولیت اختیار کریں، لوکل اور قومی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں میں فعال ہو تاکہ اس کی آواز سنی جا سکے۔ ماضی میں چند پاکستانی امریکن ڈاکٹر اپنی قابلیت، رتبے اور دولت کی وجہ سے امریکی سیاستدانوں سے اپنے تعلقات استوار کر لیتے تھے مگر اب تمام پاکستانیوں کو امریکی سیاسی و سماجی پلیٹ فارم پر متحرک ہونا ہو گا جس سے نہ صرف ان کا اور ان کی آئندہ نسلوں کا فائدہ ہو گا بلکہ ان کی آواز پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لئے بھی سودمند ثابت ہو گی۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)