ٹیکس ہدف کم کرکے 55کھرب کیا جائے، پاکستان کی آئی ایم ایف سے درخواست

May 07, 2021

اسلام آباد (مہتاب حیدر) پاکستان نے آئی ایم ایف سے درخواست کی ہے کہ ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 59کھرب روپے سے کم کرکے 55 کھرب روپے کیا جائے۔ جب کہ چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد کا کہنا ہے کہ ٹیکس دائرہ کار وسیع کرنے اور ٹیکس جمع کرنے میں بہتری کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے۔

تفصیلات کے مطابق، پاکستان نے آئی ایم ایف سے باضابطہ درخواست کی ہے کہ کوروناوائرس کی تیسری لہر کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ بجٹ کے لیے ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 59 کھرب روپے سے کم کرکے 55 کھرب روپے کیا جائے۔

آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو آئندہ بجٹ 2020-2021 کے لیے 5963 ارب روپے کا ہدف دیا تھا۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ آئی ایم ایف کے دیئے گئے ہدف اور آئندہ مالی سال کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے ایف بی آر کی ممکنہ صلاحیت میں بڑا فرق ہے۔

زراعت اور صحت سے متعلق جی ایس ٹی استثنا کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور کوروناوائرس کی تیسری لہر کے دوران طبی شعبہ مہنگا ہوجائے گا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ 12 سے 12.5 فیصد نامیاتی نمو کے ساتھ ایف بی آر کی ٹیکس آمدنی 5287.5 ارب روپے ہوسکتی ہے۔ بہتر انتظامیہ اور موثر عمل درآمد سے ایف بی آر زیادہ سے زیادہ 200 ارب روپے اضافی حاصل کرسکتا ہے، اس حساب سے ایف بی آر کی مجموعی آمدنی 55 کھرب روپے ہوسکتی ہے۔

اگر مزید اقدامات کیے جائیں تو یہ آمدنی 56 کھرب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ تاہم، 5963 ارب روپے کا ہدف بہت مشکل ہے جسے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں جب چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ چیزیں پیچیدہ ہیں اس لیے اس مرحلے پر یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے ہدف کیا ہوگا۔

تاہم، ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر ٹیکس دائرہ کار وسیع کرنے اور ٹیکس جمع کرنے میں بہتری کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا۔ دوسری جانب آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان بنیادی مالی مقاصد ٹیکس دائرہ کار وسیع کرکے، غیررسمی طریقہ کار میں کمی کرکے اور ٹیکس نظام کو سادہ اور جدید بناکر حاصل کرے۔

اس حوالے سے مالی سال 2022 کے بجٹ میں اعلیٰ کوالٹی کا اصلاحاتی پیکج متعارف کرنے کا منصوبہ ہے جو کہ جی ڈی پی کا تقریباً 0.7 فیصد ہوگا۔ یہ گزشتہ تکنیکی معاونت (ٹی اے) کی سفارشات کی بنیاد پر ہوگا اور یہ دو ستونوں پر قائم ہوگا۔

جی ایس ٹی اصلاحات سے جی ایس ٹی ٹیکس دائرہ کار وسیع ہوگا اور وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان نظام میں ہم آہنگی آئے گی۔ بالخصوص اس سے، 1. نان اسٹینڈرڈ ترجیحاتی ریٹس اور ٹیکس استثنا ختم ہوں گے اور یہ ان اشیا کو 17 فیصد کے اسٹینڈرڈ شرح پر لائیں گے۔ 2. عالمی بینک کی معاونت سے صوبوں میں سیلز ٹیکس کی سروس میں ہم آہنگی ہوگی اور 3. موجودہ حصوں کو سروسز کے ساتھ یکساں کیا جائے گا، جس کا انحصار وفاقی حکومت کی ٹیکسیشن کے تحت صوبائی ٹیکسیشن اور اشیا پر ہوگا۔

ذاتی انکم ٹیکس (پی آئی ٹی) سے نظام سادہ ہوگا، پیش رفت میں بہتری آئے گی اور لیبر معاونت ترتیب پائے گی۔ اس سے 1. اعداد میں کمی اور موجودہ آمدنی سلیبس کا حجم کم ہوگا۔ 2. موجودہ ٹیکس کریڈٹس اور الائونسز آدھے ہوں گے( ماسوائے معذور، سینئر سٹیزنز اور زکوٰۃ رسیدوں کے)۔ 3. بہت کم ٹیکس اداکنندگان کے لیے خصوصی ٹیکس طریقہ کار متعارف کروایا جائے گا اور 4۔ اضافی ٹیکس اداکنندگان کو دائرہ کار میں لایا جائے گا۔ جب کہ دیگر اصلاحات سے مالیاتی فریم ورک میں بہتری آئے گی۔

حکام سمجھ چکے ہیں کہ ٹیکس ایڈمنسٹریشن اصلاحات اور عمل درآمد کی کوششوں کو ٹیکس پالیسی اقدامات پورے کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹی اے سے فائدہ اٹھانا (جس میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک شامل ہیں) اس ضمن میں حکام کا منصوبہ ہے کہ 1. مرکزی خدشات کی بنیاد پر عمل درآمد افعال متعارف کروائے۔