پاکستان جرمن تعلقات کے 70 سال

May 27, 2021

تبدیل ہوتے بین الاقوامیحالات ہر لمحہ اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ صورتحال کا نہایت باریک بینی سے مسلسل مطالعہ کیا جاتا رہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی سے بریگزٹ تک اور جی ایس پی پلس سے ایف اے ٹی ایف کے معاملات تک اگر ہم دیکھیں تو ان تمام امور کے اثرات لامحالہ پاکستان پر ضرور مرتب ہو رہے ہیں اور مرتب ہوتے رہیں گے۔ امریکہ، جو ہر ملک کا ہمسایہ ہے، کے بعد یورپ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور یورپ کی جرمنی اور فرانس قیادت کر رہے ہیں۔ جبکہ جرمنی اور پاکستان کے تعلقات میں اس وقت نہایت اہمیت کا حامل عنصر یہ ہے کہ جرمنی مجموعی طور پرپاکستان کا چوتھا بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے جبکہ یورپ میں پاکستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے اور اس برس پاکستان اور جرمنی کے سفارتی تعلقات کی 70 ویں سالگرہ بھی منائی جارہی ہے۔ جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اس وقت دنیا دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات سے نبردآزما ہو رہی تھی۔ سرد جنگ کا زمانہ تھا جرمنی خود مغربی اور مشرقی حصوں میں جنگ کی تباہ کاریوں کے سبب سے تقسیم تھا مگر جرمن قوم میں غلطیوں سے سبق سیکھنے کی صلاحیت موجود تھی لہذا انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کی گئی غلطیوں کو قوم پرستی کی آڑ میں جائز قرار دینے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی جرمن فوج کی اس دوران دی گئی ’’ قربانیوں‘‘ کے سبب اس کی غیر معمولی حیثیت کو تسلیم کیا بلکہ وہ ان دونوں معاملات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے اور سمجھ گئے کہ اعلان کردہ، تسلیم کردہ آئین پر چلتے رہنے میں ہی قومی بقا اور معاشرتی ترقی کا راز مضمر ہے۔ اس راز کو پانے کے بعد جرمنی دوبارہ سے یورپ میں اپنی اہمیت کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا اور معاملہ صرف یورپ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس کی اہمیت بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جانے لگی۔ اسی دوران پاکستان کے جرمنی سے تعلقات بڑھنے لگے قارئین کے لئے یہ بہت دلچسپ ہوگا کہ پاکستان نے 1963میں جرمنی کو 20 سال کے لئے پچیس ملین ڈالر کا قرضہ بھی دیا تھا۔ جب طویل آمریت کے سبب پاکستان صرف مغربی پاکستان تک محدود ہوگیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنگیا تو اس وقت پاکستان کو ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش تھا کہ اس کے جنگی قیدی کیسے واپس لائے جائیں؟ ان جنگی قیدیوں میں سے ایک سو پچانوےایسے افراد تھے کہ جن پر بقول شیخ مجیب اور بھارت کے، جنگی جرائم کے الزامات تھے حالاں کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہایت جاں بازی سے آخری وقت تک مشرقی پاکستان میں پاکستان کا دفاع کیا تھا اور اب اس جاں بازی کی سزا دینے کے لئے شیخ مجیب انتظامیہ ادھار کھائے بیٹھی تھی۔ ایسی صورتحال میں اس وقت کے مغربی جرمنی کے چانسلر Willy Brandt اور ان کے وزیر خارجہ Walter Scheel نے تاریخی کردار ادا کیا، انہوں نے اس معاملے کو سلجھانے کی غرض سے ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب سے رابطہ کیا اور شیخ مجیب کو مستقل طور پر یہ سمجھاتے رہےکہ 195فوجی افسران کے خلاف بنگلہ دیش میں مقدمات چلانے اور سزائیں دینے کے غیرمعمولی منفی نتائج نکلیں گے۔ انہوں نے شیخ مجیب کو دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کے تجربات بالخصوص نیورمبرگ ٹرائلز کی مثالیں دیں کہ ان کی وجہ سے مزید کتنے مسائل نے جنم لیا اور بالآخر جرمنی بنگلہ دیش کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگیا کہ ان ایک سو پچانوے افراد کو بھی دیگر جنگی قیدیوں کے ساتھ ہی پاکستان کے حوالے کر دیا جائے۔ اس کے بعد انیس سو ستر کے عشرے میں فوجی تعلقات کی طرف بھی توجہ دی گئی اور دونوں ممالک کی فوجی اکیڈمیوں کے مابین ایک اسٹریٹجی اور فوجی تربیت کا معاہدہ ہوا اور اس وقت سے لے کر جی ایس پی پلس اسٹیٹس دینے تک جرمنی کا پاکستان کے حوالے سے مثبت کردار ہی رہا ہے جی ایس پی پلس اسٹیٹس پاکستان کو 2014 میں ملا تھا اور اس کے بعد پاکستان کی ایکسپورٹ میں 65 فیصد اضافہ ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ جب چند برس قبل میں نے جرمنی میں جرمن پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے جنوبی ایشیا سے خطاب کیا اور اس کے بعد بھی متعدد بار جب جرمن اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بار بار یہ بات کی کہ جرمنی نے جنوبی ایشیا کے معاملات میں اپنا وزن صرف پلڑے کے ایک طرف ہی نہیں ڈالا ہے بلکہ پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت ، بین الاقوامی تیل کی گزرگاہ اور محل وقوع کی اہمیت سے جرمنی اچھی طرح واقف ہے اور یہی سوال جواب اس وقت بھی ہوئے تھے جب میں جرمنی کی مختلف یونیورسٹیوں میں مختلف اوقات میں جنوبی ایشیا کی صورتحال پر لیکچر دینے گیا تھا اور اسی طرح کے خیالات تب دیکھے تھے جب میں جرمنی سے لیڈر شپ اینڈ سٹرٹیجک افیئرز میں کورس کر رہا تھا۔ جرمنی کی عالمی حیثیت مسلمہ ہے اور پاکستان کے لئے تو خاص طور پر طے شدہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اب ہم پر مستقل طور پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے اور اگر خدانخواستہ اس کے نتیجے کے طور پر جی ایس پی پلس چلا گیا تو موجودہ ڈانواں ڈول معیشت کو مزید زبردست جھٹکا لگ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے بدلتے حالات بدترین حالات کا پیش خیمہ محسوس ہورہے ہیں کہ جن کے لامحالہ اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ جرمنی ایک ایسا ملک ہے کہ اس کے اس خطے میں وہ مفادات نہیں جو امریکہ کے ہیں اس لئے وہ اس خطے کو اس نظر سے نہیں دیکھتا کہ جیسے کہ کہا ہے کہ وہ ایک پلڑے میں اپنا سارا وزن نہیں ڈال دیتا ۔ یہ ضروری بھی ہے اور ممکن بھی کہ جرمنی سے پاکستان کے معاشی اور اسٹرٹیجک تعلقات کو مزید وسعت دی جائے تاکہ ہم یورپ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مضبوط آواز کو اپنے لئے مزید مضبوط کر سکیں ۔